اجتماعی مسائل کا حل اور آئینی ترمیم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اجتماعی مسائل کا حل اور آئینی ترمیم

    پاکستان 1947 کو وجود میں آیا ، جس کی منظوری برطانوی پارلیمنٹ نے دی، انڈیا ایکٹ 1935 کو بطور آئین پاکستان کے تسلیم کیاگیا۔ آٹھ سال بعد یعنی 1956 ......

    By Sufian Khan Published on Nov 22, 2024 Views 242

    اجتماعی مسائل کا حل اور آئینی ترمیم

    تحریر: سفیان خان ۔بنوں

     

    پاکستان 1947ء کو وجود میں آیا ، جس کی منظوری برطانوی پارلیمنٹ نے دی، انڈیا ایکٹ 1935ء کو بہ طور آئینِ پاکستان کے تسلیم کیاگیا۔ آٹھ سال بعد 1956ء میں پہلا آئین تیار ہوا۔کچھ اضافوں کے ساتھ 1956ء کا آئین 1935ء کی ترتیب نوتھی۔ دو سال بعد مارشل لاءلگادیاگیا۔ پھر 1956ء کو مارشل لاء کے فریم ورک کے ساتھ 1962ء کا آئین نافذکیا گیا۔ آخر میں 1962ء کے آئین کی ترتیب نو کرکے 1973ء کا آئین تشکیل دیاگیا ۔جو اَب تک اس لیے موجود ہے کہ پاکستانی نظام سے وابستہ تمام فریق اس پر متفق ہیں۔ نفاذ کے 5 برسوں میں آئین میں 7 ترامیم کی گئیں، آٹھویں ترمیم نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کو محفوظ کیا، نویں ترمیم کے ذریعہ شریعہ لاء کو اعلیٰ قانون قرار دے کر آئین کو مشرف باسلام کیا گیا۔ 2024ء تک آئین میں 26 ترامیم ہوچکی ہیں۔

     

    1973ء کا آئین بناتے وقت اشرافیہ نے پاکستان کو انسانی حقوق کا علمبردار بنانے کی ٹھانی ۔ ان حقوق کو تحریر میں لانے کے لیے آئین کے اس حصے کا انتخاب کیا گیا، جس پر بے عملی کی صورت میں آئین شکنی نہ ہو سکے،جسے آئین کا باب نمبر 2 کہا جاتا ہے۔یہ باب نمبر 02 کیا ہے؟ اقوالِ زریں کا مجموعہ ہے۔ آئینِ پاکستان 12 حصوں پر مشتتمل ہے اور ہر حصہ ابواب میں تقسیم ہے، حصہ نمبر 2، دو ابواب پر مشتمل ہے۔ آئین میں موجود اس باب نمبر 02 کی حیثیت اسی باب کی دفعہ نمبر 30 میں واضح کردی ہے کہ یہاں پر موجود جتنی بھی باتیں ہیں وہ محض باتیں ہی شمار کی جائیں گی۔ یہاں پر آسان لفظوں میں وضاحت کی گئی ہے کہ باب نمبر 02 میں موجود باتوں پر عمل نہ کرنے کی صورت میں کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی۔گویا ان باتوں کا وزن گاؤں کے کسی عمر رسیدہ بزرگ کی نصیحتوں سے زیادہ نہیں ہے۔ اس باب میں موجود حکمت عملی کے متعلق چند نصیحتیں ملاحظہ کیجیے۔

    کسی بھی شخص کو زندگی اور آزادی سے محروم نہ کیا جائے۔ یعنی آزادی سے جینا ہر شہری کا پیدائشی حق ہوگا۔

    تمام شہری قانون کی نظر میں برابر تصور ہوں گے۔ یعنی امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ قانون نہیں ہوگا۔

    رنگ، نسل اور عقیدے سے بالاتر ہوکر تمام شہریوں کو بنیادی ضروریات (خوراک، لباس، مکان، تعلیم، صحت) مہیا ہوں گے۔ یعنی کوئی بھی شخص بھوکا نہ سوئے گا، نہ ہی کوئی علاج کے لیے تڑپے گا اور نہ ہی کسی کو مکان اور تعلیم کی فکر ستائے گی۔

    ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز نہ رہنے دی جائے گی اور اس کی منصفانہ تقسیم پر عمل کیاجائے گا۔

    دفعہ نمبر 38 کی شق (f) میں درج ہے کہ ”سود کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے گا۔

     

    اَب عام ذہن میں اگر یہ سوالات پیدا بھی ہو جائیں کہ آئینی تحفظ ہونے کے باوجود آج لوگ بھوکے کیوں مر رہے ہیں؟ لاکھوں بچے بھوکے کیوں سوتے ہیں؟ کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے گھر کیوں ہیں؟ کیوں کسی کی جان و مال کو تحفظ حاصل نہیں ہے؟ امیر اور غریب میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ تمام وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز کیوں ہیں؟ سود کے جلد از جلد خاتمے میں جلد از جلد کا اصلی مطلب کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ..

     

    آج نصف صدی گزرنے کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم میں پاسدارانِ وطن اور رہنمایانِ مذہب نے پھر سے الفاظ کی ہیراپھیری میں اُلجھا کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی، تو سادہ ذہنوں نے بھی توقعات لگائیں۔ مبارکبادیں سمیٹی گئیں اور ایک دوسرے سے چپک کر ایسے گلے ملے کہ جیسے تازہ تازہ انقلاب انسٹال کرکے واپس آ رہے ہوں۔ بات مگر وہی پرانی ہے...

     

    اَب کی بار جلد از جلد کو ”2028ء تک“ میں تبدیل کیا گیا۔ اَب ہم باب نمبر 02 کو اگر کچھ لمحے کے لیے بھول بھی جائیں اور پورا فوکس 2028ء والے قول پر جمائے رکھیں تو ایک پاکستانی ذہن پھر سے چند سوالات اُٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ.... 1973ء کے آئین کے الفاظ ”جلد از جلد“ میں کون سی خامی تھی، جسے ”2028ء تک“ کے الفاظ سے تبدیل کر دیا گیا؟ اگر 1973ء میں ایک بار جلد از جلد کا لولی پاپ دے کر 51 سال تک پاکستانیوں کو بے وقوف بنایا گیا، تو پھر مزید 4 سال کی مہلت کیوں دی گئی؟ کیا سود کے خاتمے کے لیے 51 سال کا دورانیہ کافی نہیں تھا اور اگر 51 سال کافی نہیں تھے تو پھر چار سال میں کیسے ممکن ہوگا؟ اَب تک اگر پاکستانی معیشت سود پر مبنی تھی تو پھر پاکستان ”اسلامی جمہوریہ “ میں جو اسلام کا سابقہ ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیا ایک اسلامی ملک کی معیشت سود پر مبنی ہوسکتی ہے؟ چار سال کے اندر اندر پوری معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے کوئی پلاننگ، کوئی ہوم ورک موجود ہے؟ کیا چار سال میں تمام قرضوں اور ان پر واجب الادا سود سے مکمل طور پر خلاصی ممکن بھی ہے؟

     

    پاکستان میں مروج اسلامی بینکاری جو محققینِ معیشت کی رائے کے مطابق سودی نظام پر ہی اسلام کا لیبل لگایا گیا ہے ۔اَب اِمکان یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کو مزید وُسعت دے کر ملک میں موجود روایتی بینکاری پر بھی اسلام کا مقدس غلاف چڑھادیا جائے اور عوام کو ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے بے وقوف بنایا جائے کہ ”چوں کہ پاکستان میں موجود تمام کے تمام بینکس اسلامی ہو گئے ہیں، اس لیے آج کے بعد مملکتِ پاکستان کو سود سے مکمل طور پر پاک تصور کیا جائے۔

     

    77 سال بیت گئے۔ اس دوران قوم کو خوش نما نعروں سے بارہا بے وقوف بنایا گیا۔ ان دِل فریب نعروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آئین پر عمل شروع ہو جائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آئین میں یہ ترمیم ہوجائے پھر تو حالت ہی بدل جائے گی... حال آں کہ ترمیمات کا کھیل پچھلے 51 سالوں میں 26 بار دہرایا گیا۔ اوسطاً ہر 2 سال بعد ایک نئی ترمیم سے عوام کومحظوظ کیا گیا، مگر سیاسی، معاشی و سماجی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ خودکشیاں کرنے اور ملک سے فرار ہونے میں نجات ڈھونڈ رہے ہیں۔ نوجوانوں کو یہاں رہنا جہنم لگتا ہے اور جہنم کی یہ تپش تب تک جلاتی رہے گی، جب تک یہ معلوم نہ کریں کہ قوم کا حقیقی مسئلہ کیا ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کا تجربہ شدہ راستہ کیا ہے۔

     

    اہل عقل جانتے ہیں کہ مسئلہ اس ملک کا نظام ہے، جس نظام کی بنیاد ایک غلام قوم کے لیے برٹش دور میں رکھی گئی تھی۔ انگریز تو چلا گیا، لیکن ورثے میں اپنا نظامِ ظلم دے گیا۔ یہ نظام روزِ اول سے ایسے لوگوں کے قبضے میں رہا جو انگریز کے ساتھ بار بار اپنی وفاداریاں ثابت کر چکے تھے۔ آج وہی خاندان ہمیں لوٹ لوٹ کر کھائے جا رہے ہیں۔ ان کے ہر ایک فیصلے ہر ایک منصوبے میں ذاتی مفادات اور عوام کی تذلیل لازمی شامل ہوتی ہے۔

     

    آج نوجوانوں کو اپنے اپنے من پسند لیڈر کے لیے باہم لڑنے، بلند و بانگ نعروں کے پیچھے چلنے اور آئینی ترمیم والے دھوکوں سے بچتے ہوئے ظلم کے فرسودہ نظام سے نکلنے کی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

    Share via Whatsapp