مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی
مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی میں فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کالم میں۔
مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی
(Idealism and Realism)
رضوان غنی(میرپور آزاد کشمیر)
سائنس میں ہم جس طریق کار کو آئیڈیل میکانزم کہتے ہیں، اس میں کوئی اندرونی یا بیرونی قوت اس عمل میں تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی اور ساتھ ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایسا نظام موجود تو نہیں ہے، لیکن ہم اپنے قانون کو مکمل کرنے کے لیے ایسا نظام فرض کر لیتے ہیں۔ انسانی طبیعت میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ ہم بہتر سے بہترین کی طرف جانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور ایسی سوچ کے حامل انسان کو اشرف المخلوقات کہاجاتا ہے، جہاں وہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کے لیے بھی ایسی کارآمد سوچ کا ذریعہ بنے، جس سے کل انسانیت کو فائدہ پہنچے۔
دنیا میں ابھی تک ہونے والی جنگیں اور پھر مواصلات کے طریقہ کار میں ترقی کے باعث دو قسم کے نتائج پیدا ہوئے ہیں۔ ایک جنگ کا نظریہ جس میں طاقت کے زور پر بلاجواز بے دریغ انسانوں کا قتل بھی کیا گیا اور بڑی قوتوں نے طاقت کے ذریعے لوگوں کا استحصال کیا۔ ان کی اخلاقیات تباہ کیں۔ اور دوسرا امن کا نظریہ جس کا مقصد لوگوں کو آپس میں جوڑنا اور امن کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ یوں دو طرح کے مکاتب فکر نے جنم لیا۔ ایک وہ جو مثالیت پسندی کے حامی ہیں اور دوسرا وہ جو حقیقت پسندانہ رویہ کے حامی ہیں۔
افلاطون کے نظریات بھی اسی عالمی امن کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیگل،برٹرینڈ رسل اور مہاتما گاندھی بھی اسی عدمِ تشدد کی حکمتِ عملی کو عقل کل مانتے ہیں۔ یہ لوگ جنگ کو گناہ سمجھتے ہیں اور یہ اس بات کے قائل ہیں کہ انسانوں سے جڑے تمام رویوں کا حل امن و آشتی سے ممکن ہے۔ان کا ماننا ہے کہ ریاستوں کے درمیان تصادم کا حل بین الاقوامی قانون کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مثالیت پسندی قانونِ قدرت کے قریب تر ہے، لیکن قدرت کا قانون یہ کہتا ہے کہ جب ہم اشیا کو ان کی جگہ کی مطابقت سے ترتیب نہیں دیتے، یعنی ظلم کے نظام کو تقویت بخشتے ہیں اور عدل کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو وہاں غیرفطری عوامل کا ہونا، ناگزیر ہوجاتا ہے۔مثالیت پسندی کے اہم اصولوں میں ایک اخلاقی اقدار ہیں، جس میں انصاف پسندی،عدل،اطاعت اور جائزیت کا پہلو شامل ہو۔
دوسری طرف اس نظریہ کے حامل افراد طاقتی سیاست کا مکمل انکار کرتے ہیں، جب کہ حقیقت پسندوں کے نزدیک طاقت و ریاست قدرتی امر ہے اور اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مثالیت پسندی کے مطابق فطرت انسانی دائمی نہیں ہے، اس میں تغیر ممکن ہے۔
مثالیت پسندوں کے نزدیک وہی طرزِحکومت مثبت ہے جو ریاست کو مثبت انداز سے آگے لے کر جائے۔ یہ ریاستی حکومت کو بین الاقوامی اداروں کی اکائی مانتے ہیں اور اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اجتماعی مفادعامہ کی پہلی سیڑھی ہی بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ہے۔معاشرہ انسانی ضروریات کے تحفظ اور حقوق کا ذمہ دار ہے، لیکن آج کا یورپ اس عقلی دلیل کو ماننے کے بجائے اپنے ہی فلاسفر کی بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔ وہ ملکوں کو اس لیے تحفظ فراہم کرتا ہے کہ ان سے فائدہ حاصل کر سکے۔ یوں عالمی امن کا علم بردار ہی اس مثالیت پسندی کے نظریہ کے مخالف سمت میں جا رہا ہے۔ یوں پوری دنیا میں جنگ کے ذریعے مفادات حاصل کرنا اور پھر ان ملکوں کو بے آسرا چھوڑ دینا، اس کا وطیرہ بن چکا ہے۔
گویا مثالیت پسندی کا انکار حقیقت پسندی کی شکل میں کیا جا رہا ہے۔حقیقت پسندوں کا ماننا ہے کہ دنیا متضاد مفادات اور تنازعات پر مبنی ہے اس لیے اخلاقی اصولوں کو کلی طور پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے نزدیک انسانی فطرت مجرد (abstract) اصولوں کے بجائے حقیقت کے قریب ہے، جس میں اِصلاح ممکن نہیں۔ لیکن طاقت وہ طریقہ کار ہے، جس سے ریاست کے افراد کی سوچ بدلی جاسکتی ہے۔اس نظریہ کے حامل مفکرین میں نکولومیکاولی، کارل مارکس، ارسطو اور فریڈرک شومین وغیرہ شامل ہیں۔
حقیقت پسندوں کے اصولوں میں سب سے زیادہ اہمیت قومی مفاد ہے، لیکن اس میں لوگوں کی فطرت بدلنے کا طریقہ ریاستی حکم کے ذریعے ہوتا ہے۔ حقیقت پسندوں کا ماننا ہے کہ کوئی بھی عمل اخلاقی اصول کے بجائے طاقت کے بل بوتے پر ہی قابل عمل ہوسکتا ہے۔
حقیقت پسندانہ رویہ کے حامل مفکرین ریاست کے اندرونی معاملات کو مقتدرہ کی صلاحیت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اور درج ذیل عناصر کو ریاستی ترقی میں اہم ذرائع گردانتے ہیں۔ اس میں نظریہ،محل وقوع ،ٹیکنالوجی،آ بادی اور مادی وسائل شامل ہیں۔
ان دونوں نظریات کے حامل آخر اس بات پر بھی متفق ہیں کہ یہ دونوں نظریات ہی اپنی اصلی شکل کھو چکے ہیں اور دونوں ہی مکمل نہیں ہیں۔ کچھ جگہ تشدد کا نظریہ حاوی ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ عدم تشدد ہی کامیاب حکمت عملی ثابت ہوتی ہے۔جو ریاست مضبوط ہوگی وہ امن و امان کا قیام، ملکی دفاع، نظام عدل کا قیام اور بین الاقوامی تعلقات کو بہتر بنائے گی، تب ہی ریاست ترقی کی طرف گامزن ہوگی۔
حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ایک کامیاب ریاست کا نقشہ پیش کرچکے ہیں۔ یہ ایسی فلاسفی ہے جس کو اگر سمجھ کر قابل عمل بنایا جائے تو ہماری ریاست اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق پوری دنیا کے سامنے ایک مثالی ریاست کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔
دنیا اس وقت جدید نظام حکومت کی تلاش میں ہے، جس میں تمام لوگوں کو آزاد نظام معیشت، تحفظ صحت و ماحولیات، ذرائع مواصلات اور معاشرتی فلاح پر قائم ریاست اور اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے زیرانتظام لایا جائے۔
ایسا متوازن نظام اسی صورت ممکن ہے، جب ہم اپنے ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دیں گے۔ خود کو ملکی ترقی کا ذریعہ بنائیں گے،اس جذبہ میں سب سے زیادہ کردار ملک کا نوجوان ہی ادا کرسکتا ہے کہ وہ ایک باشعور اجتماعیت کا حصہ بن کر اپنی ریاست کی ترقی کی وَجہ بنے۔ وہ تمام تر انفرادی فروعی مسائل سے نکل کر ریاستی یا قومی سوچ کو اپنے اندر جگہ دے۔ اس کا ہر عمل قوم کی فلاح اور ترقی کا باعث بنے۔
یہ ایک مشکل راستہ ہے، لیکن قرآن کےبیان کردہ اصول کے مطابق "ہر مشکل کے بعد آسانی ہے"۔