پاکستان کے اصل مسائل اور ہمارے اجتماعی رویے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان کے اصل مسائل اور ہمارے اجتماعی رویے

    پاکستان سماج کا اصل مسئلہ بوسیدہ سرمایہ داری نظام ہے۔

    By Imran Ali Khan Published on Sep 19, 2019 Views 4421
    پاکستان کے اصل مسائل اور ہمارے اجتماعی رویے
    عمران علی ،دبئی
         
    گزشتہ چھ دہائیوں سے اس ملک ملک میں کئی ایک سیاسی گروہ برسراقتدار رہچکے ہیں۔اور ہر گروپ یہی نعرہ لیکر میدان میں آیا کے پاکستان کے اصل مسائل کا حل تو میرے پاس ہے اور میں جانتا ہوں کہ مسائل  کیا ہیں اور ان کو کسے حل کرنا ہے اور ہر بار عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے دعوے کے ساتھ اتے ہیں اوراس کے بدلے میں ان کے ارمانون کا خون کر کے لوٹا دیتے ہیں۔مسائل جوں کے توں ہیں۔
    کسی بھی سوسائٹی میں مسائل کاپیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں دنیا میں ہر قوم کو مسائل کا سامنا رہاہے،لیکن وہی قوم اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے،جو اپنے سامنے ایک مربوط واضح اور دو ٹوک نظریہ رکھتی ہو۔ہمارے معاشرے کا سب سے روگ یہی ہےکہ پورے کا پورا سماج فکری انتشار میں مبتلا ہے۔ایک طرف مسائل کا انبار ہے،اور دوسری طرف ان مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی راستہ نظر نہیں آ تا۔سب سے بڑھ کر یہ کے مسائل کی فہرست ہر مکتبہ فکر کی اپنے ذہن کے مطابق ہے۔سیاسی جماعتوں جو حزب اختلاف میں ہوتی ہیں کا کہنا ہےکہ ہمارے پارٹی کی حکومت نہیں اسلئے یہ مسائل ہیں۔ان کے نزدیک مسائل کی جڑ انکی پارٹی کا اقتدار میں نہ ہونا ہے اور جب انکی اپنی حکومت بن جاتی توپچھلی حکومت کے دور کی حکومت پرنااہلی اور مفاد پرستی کا رونا رو کر اپنے پانچ سال پورے کر لیتی ہے۔سیاسی مذہبی جماعتیں کا نقطہ نظر یہ کہ جب اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا مسائل حل نہیں ہو سکتے۔اور اسلام نظام کے بارے ہر ایک جماعت کا اپنا ہی الگ اور فرقہ وارانہ نقطہ نظر ہے۔ان مذہبی جماعتوں کا مقصد صرف دین کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کےلئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔اس لئے جب یہ جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ بنتی ہیں تواسلام کوبھول کر اسی ظالمانہ نظام کا تحفظ کرتی ہیں ۔اصلاحی مذہبی جماعتیں تو ان مسائل کو تقدیر کے جوڑ کے اس ظالمانہ نظام کے ساتھ صلح کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اب آئیے ذرا سکالر اور صحافی کی طرف وہ نیوز چینلز پر بیٹھ کر اپنے ذہنی اختراع کے مطابق مسائل کی ایک لمبی فہرست بتائیں گے اور اپنےہی خیالات و افکار کے مطابق اس کا حل پیش کرتے ہیں۔اب اسی صورت حال میں پورا سماج کنفیوژن کا شکار ہے۔کہ  کس کی بات مانیں اور کس کی اتباع کریں۔اگر معاشرے کے اجزائے ترکیبی کا علم ہو تو معاملے کی تہہ  تک پہنچا جاسکتا ہے۔عمرانیات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ معاشرہ بنیادی طور پر تین عناصر سے مل کر بنتا ہے
    1۔فکر و نظریہ
    2سیاسی نظام
    3۔معاشی نظام
    اب ان تینوں عناصر کو سامنے رکھ کر ہم اپنی سوسائٹی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی نظریہ نہیں ہے  کیوں کہ جس نعرے پر ملک حاصل کیا کہ ہماری فکر ونظریہ، معاشی نظام اور سیاسی نظام اسلام کا ہو گا ۔لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا بنایا ہوا ہے جو صرف نظام کے کلرک پیدا کرتاہے۔جو نو آبادیاتی دور کا تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے سامراج سے مرعوبیت کے حوالے سے ذہن پیدا کرتا ہے۔جو ہمارے نوجوان نسل میں جرات اور سماجی شعور پیدا کرنے کی بجائے بزدلی اور پست ہمتی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
    سیاسی نظام کی حالت بھی ایسی ہی ہے،آ ج بھی ہمارے ہاں مکاولی کی سیاست رائج ہے۔جو جھوٹ دھوکہ دہی اقربا پروری اور بین الاقوامی سامراج کی آلہِ کار کا کردار ادا کررہی ہے۔ جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اس وقت ہمارا پورا سماج بدامنی اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔جمہوریت کے نام پر فرسودہ سرمایہ داری نظام نافذ ہے
    پوری پارلیمنٹ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ ہے اس نام نہاد جمہوریت نے عوام کو سوائے بدامنی دہشتگردی اور قتل و غارت گری کچھ نہیں دیا۔اب آتے ہیں معاشی نظام کی طرف تو وہ بھی ایڈم اسمتھ کی فلاسفی پر مبنی ہے۔جو سرمایہ دارانہ نظام کا بانی ہے۔سرمایہ دارنہ نظام معیشت معاشرے میں ایک خاص طبقے کی اجارہ داری قائم کر کے 98% طبقے کو محروم معیشت بناتا ہے۔سماج میں غربت و افلاس اور بے روزگاری پیدا کرتا ہے سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے بجائے عالمی سامراج کے قرضوں کے بوجھ تےتلے دبا دیتا ہے۔میرے خیال میں کسی  بھی سماج کی ترقی یا زوال کا اندازہ ان تین عناصر کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے ہماری سوسائٹی کے یہ تینوں زوال کا شکار ہیں۔لیکن ہمارا مجموعی مزاج یہ بن چکا ہےکہ بجائے ان مسائل کو سنجیدگی کی  سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی طرف بڑھیں ہم ان سے صرف نظر کر کے اپنی ذاتی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی ناکام کوشش میں پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ اور یا پھر ان مسائل کو تقدیر کا لکھا مان کر نظام سے مصالحت کر لیتے ہیں۔اکبر آ لہ آ با دی کا ایک شعر ہے  
    ہم کیا کہیں احباب کیا کارے نمایاں کر گئے 
    بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی پھر مر گئے 

    یہ سوال میں اس کالم کو پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ جب اجتماعی طور پر معاشرہ زوال پذیر ہو،تو مسائل کے حل کی راہ کیا ہے۔؟؟۔
    Share via Whatsapp