سامراج سے آزادی کا سفر
تاریخِ انسانی میں سامراجیت نے ہمیشہ اقوامِ عالم کو دو طبقات میں تقسیم کیا ہے۔استحصال کرنے والی اقوام اور استحصال کا شکار اقوام ۔ مغرب کی سامراجی قوتوں

سامراج سے آزادی کا سفر
تحریر:پروفیسر نیک الرحمٰن۔ پشاور
تاریخِ انسانی میں سامراجیت نے ہمیشہ اقوامِ عالم کو دو طبقات میں تقسیم کیا ہے۔استحصال کرنے والی اقوام اور استحصال کا شکار اقوام ۔ مغرب کی سامراجی قوتوں نے دنیا پر طویل عرصے تک حکمرانی کی، لیکن آج ان کی گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔
یہ مضمون مغربی سامراجیت کی تاریخی ترقی، اس کے اَثرات اور موجودہ زوال و شکست و ریخت پر روشنی ڈالتا ہے۔
1۔ سترھویں صدی میں مغربی سامراجیت کی دنیا پر قبضے کا آغاز:
سترھویں صدی کو مغربی سامراجیت کے آغاز کی صدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی دور میں یورپی اقوام جیسے پرتگال، اسپین، ہالینڈ، فرانس اور برطانیہ نے دنیا کے مختلف خطوں میں تجارتی اور عسکری مداخلت کا آغاز کیا۔ سمندری راستوں کی دریافت کے بعد ان طاقتوں نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں اپنی موجودگی مضبوط کرنا شروع کی اور بتدریج وہاں نوآبادیات (کالونیاں) قائم کیں۔ ہندوستان، انڈونیشیا اور لاطینی امریکا جیسے خطے ان کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا پہلا ہدف بنے، جہاں سے انھوں نے مقامی وسائل کا استحصال شروع کیا اور طویل المدتی سیاسی و معاشی کنٹرول قائم کیا۔
2۔ اٹھارویں صدی: سامراجیت کا بین الاقوامی استحصال اور صنعتی انقلاب
اٹھارویں صدی میں مغرب کی استعماری طاقتوں کا استحصالی عمل مزید شدت اختیار کرتا ہے اور خصوصاً برطانیہ اس میدان میں سب سے آگے نکلتا ہے۔ 1757ء کی جنگِ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضہ کیا، جو دولت اور وسائل کے اعتبار سے برصغیر کا ایک زرخیز خطہ تھا۔ برطانوی سامراج نے یہاں کی دولت کو بے دردی سے لوٹا اور اسے برطانیہ منتقل کیا۔ یہی لوٹی گئی دولت برطانیہ میں صنعتوں کے قیام اور صنعتی ترقی کی بنیاد بنی۔ اس طرح مغرب میں جس صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا، اس کی اصل جڑیں مشرقی دنیا کے وسائل کے استحصال میں پیوست تھیں۔
3۔ انیسویں صدی: سامراجیت کی تکمیل اور استحصال کا عروج
انیسویں صدی تک مغربی طاقتوں نے دنیا کے بیش تر حصوں پر قبضہ جما لیا تھا۔ افریقا کی بندربانٹ، ہندوستان پر مکمل تسلط اور چین پر تجارتی دباؤ سامراجی عروج کی علامت تھے۔ اپنے استحصال کو جواز دینے کے لیے انھوں نے "سفید فام انسان کا بوجھ"(White man burden) جیسے نظریات پیش کیے اور مغربی تعلیم، تہذیب و مذہب کو سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
4۔ بیسویں صدی: سامراجی قوتوں کی کشمکش اور آزادی کی تحریکیں
بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی عالمی جنگ ہوئی، جو دراصل سامراجی طاقتوں کی منڈیوں کی بندربانٹ پر اور ان کی آپس کی دشمنی کا نتیجہ تھی۔ اس جنگ سے مغرب کے استحصالی ڈھانچے میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ پہلی بار نوآبادیاتی عوام نے آزادی کی خواہش کا اِظہار کیا۔ ہندوستان میں تحریک خلافت اسی بیداری کی ایک علامت تھی۔ دوسری عالمی جنگ نے مغربی سامراج کو مزید کمزور کیا۔ اس کے بعد ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں آزادی کی لہریں دوڑ گئیں،مگر سامراجیت نے "جدید نوآبادیاتی نظام" کی شکل میں اپنا وجود برقرار رکھا۔ یعنی محکوم اقوام کو آزادی تو ملی، مگر ناقص ۔ ظاہری آزادی، مگر درحقیقت وہی سامراجی غلامی (بواسطہ مقامی اشرافیہ)
5۔ اکیسویں صدی: کامل آزادی کی صدی
آج مغرب کے استحصالی نظام کی آخری ہچکیاں جاری ہیں۔موجودہ عالمی معاشی، سیاسی اور تہذیبی بحران اس بات کا ثبوت ہیں کہ سامراجی طاقتیں زوال کا شکار ہوچکی ہیں۔ عالمی اداروں کی بے بسی، امریکا اور یورپ کی اندرونی تقسیم اور غریب اقوام کا اُبھرتا ہوا شعور ایک نئے دور کی نوید ہے۔ مظلوم اقوام کی کامل اور حقیقی آزادی اَب زیادہ دور نہیں۔
6۔ تیاری کا وقت: صرف نظریاتی شعور اور مطلوبہ مہارتوں کی ضرورت
بدلتے عالمی حالات سے صرف وہی ممالک فائدہ اُٹھا سکیں گے جو خود کو دور کے تقاضوں کے مطابق تیار کر چکے ہوں گے۔ یہ تیاری صرف فوجی یا معاشی میدان میں نہیں، بلکہ فکری اور اخلاقی بنیادوں پر بھی ضروری ہے۔ جن اقوام نے اپنی نوجوان نسل کو شعور، قیادت،مطلوبہ مہارتوں اور جدوجہد کا سبق دیا ہو، وہی آنے والے وقت میں سرخرو ہوں گی۔
7۔ ہمارے لیے پیغام: باشعور قیادت کی ضرورت
آج پاکستان جیسے ممالک کے لیے سب سے بڑی ضرورت ایک پختہ، تعمیری اور مثبت سوچ رکھنے والی قیادت کی ہے، ایسی قیادت جو نوجوانوں پر مشتمل ہو، جو سامراج کی فکری غلامی سے آزاد ہو اور جو جدید دور کے تقاضوں کا ادراک رکھتی ہو۔ ایسی قیادت ہی موجودہ دور میں قوم کو حقیقی آزادی دِلانے کے ساتھ ساتھ قوم کو ترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے۔ اگر ہم نے آج باشعور اور مطلوبہ خوبیوں کی حامل نوجوان قیادت تیار نہ کی تو آنے والا وقت ایک اور غلامی کی بھیانک شکل اختیار کر سکتا ہے۔
حاصل کلام
مغربی سامراجیت آج دم توڑ رہی ہے اور دنیا ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہے، جہاں اقوام کو اپنی قسمت خود سنوارنے کا موقع حاصل ہے۔ لیکن یہ موقع صرف انھیں حاصل ہوگا جو اس کے لیے فکری، تعلیمی اور عملی طور پر تیار ہوں گے۔ اَب وقت آگیا ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھیں اور خود کو ہر میدان میں خودمختار بنانے کی کوشش کریں ، سیاسی، معاشی، تعلیمی اور سماجی سطح پر۔
اسی تناظر میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ ایک ایسا منفرد ادارہ ہے جو نوجوانوں کو فکری تربیت، شعور اور عملی راہ نمائی فراہم کررہا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف تعلیم دیتا ہے، بلکہ ایک آزاد، باوقار اور خودمختار معاشرے کے خواب کی تعبیر کے لیے ذہن تیار کرتا ہے۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، اس پلیٹ فارم سے وابستہ ہوں اور ان افکار و نظریات کو سمجھیں جن کی بنیاد پر ایک حقیقی آزاد قوم کی تشکیل ممکن ہے۔