وطن کی حفاظت کا فریضہ اور جنگ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • وطن کی حفاظت کا فریضہ اور جنگ

    جنگ کے دِنوں میں جذبات سے ہٹ کر عقلیت کی بات کرنا مشکل ہوتا ہے،خاص کر اس ماحول میں جہاں میڈیا کی یلغار اپنے ویوورز کے جذبات کو برانگیختہ کررہی ہو۔۔۔

    By محمد علی Published on May 31, 2025 Views 335
    وطن کی حفاظت کا فریضہ اور جنگ 
    تحریر: محمد علی۔ ڈیرہ اسماعیل خان

    جنگ کے دِنوں میں جذبات سے ہٹ کر عقلیت کی بات کرنا مشکل ہوتا ہے،خاص کر اس ماحول میں جہاں میڈیا کی یلغار اپنے ویوورز کے جذبات کو برانگیختہ کررہی ہو،ہر بندہ بغیر تحقیق اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز شئیر کررہا ہو،اور اکثریتی آبادی میڈیا(سوائے چند مستند خبروں)کے دکھانے پہ اپنی رائے بنا رہی ہو،اس کے علاوہ اس لیے بھی کہ حالات لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہوتے ہیں،ایسے میں کوئی حتمی بات کرنا مشکل ہوتا ہے،جب تک کے سارے واقعات وقوع پذیر نہ ہوجائیں اور حالات اپنے معمول پر نہ آجائیں۔

    حالیہ پاک بھارت جھڑپ میں دونوں اطراف سے میڈیا ہاؤسز نے جس طرح جنگ کو ایک بزنس آپرچونیٹی بنایا اور جو سنسنی،جھوٹ اور اشتعال پھیلایا وہ ایک طرف،تشویش ناک عمل یہ تھا کہ ایک جغرافیائی،مفاداتی و خطے میں چودھراہٹ کی جنگ کو مذہبی بنا کر پیش کیا گیا۔جنگوں کو مذہبی بنانا شروع دن سے سامراجی حکمت عملی رہی ہے،انھوں نے قرونِ وُسطیٰ میں ہونے والی جنگوں کو"صلیبی جنگ"کا عنوان دیا۔ حال آں کہ وہ جنگیں مذہب کی بنیاد پہ نہیں تھیں،بلکہ رومی سلطنت اور اس کی باقیات کے ظالمانہ نظام کے خلاف تھیں،جس نے ارضِ مقدس اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں لوگوں کو محکوم بنایا ہوا تھا۔

    پاک، بھارت سابقہ جنگوں کی مافوق الفطرت کہانیاں آج بھی بڑی شد و مد سے سنائی جاتی ہیں کہ فلاں ہستی کا نزول ہوا،بدقسمتی سے آج بھی کچھ لوگ نہ صرف ان کہانیوں پہ یقین رکھتے ہیں، بلکہ اسی طرح کی نئی کہانیاں گھڑ رہے ہیں اور ان تازہ جنگوں کو مذہبی بنانے کے لیے بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں۔

    جنگوں کو مذہبی اور مافوق الفطرت ذہنیت کے ترتیب دینے میں کچھ عناصر خاصا نام رکھتے ہیں،جن میں جنگی بیانیہ گھڑنے والے ایک مشہور صاحب اور دوسری کچھ دائیں بازو کی جماعتیں ہیں، ان لوگوں نے ہر معاملے کو شعور،تجزیہ اور منطق کے بجائے جذباتیت و مذہب کی نظر سے دیکھا اور ان کو کفر و اسلام کا معرکہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

    ان دائیں بازو کی جماعتوں کے ایک امیر صاحب فرما رہے تھے کہ "قوم جغرافیہ سے نہیں عقیدے سے بنتی ہے،جن مذہبی لوگوں نے تقسیمِ ہند کے وقت "جغرافیائی وطن"کے نظریے کی حمایت کی، آج انھیں وقف املاک اور مودی کے ہندوتوا کے نظریے سے سمجھ آگئی ہوگی کہ دو قومی نظریہ ایک زندہ نظریہ ہے،ہماری(پاکستان کی)بنیاد اسلام پر ہے۔"
    اس سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اسی جماعت کا بھارتی دھڑا،حالیہ پاک بھارت جھڑپ میں مکمل طور پر بھارت(جغرافیائی وطن)کی حمایت میں تھا۔
    اُن کا کہنا تھا کہ پورا دیش بلا تفریق مذہب و ملت بھارتی مسلح افواج کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کی تائید کرتا ہے۔ 

    کاش!کوئی امیر محترم کو بتاتا کہ حضور ہندوتوا والوں کا نظریہ بھی بالکل ویسا ہی ہے کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے،ہندوستان میں صرف سناتن اور ویدک مذہب کے ماننے والے ہی رہیں گے،جس طرح آپ(دو قومی نظریہ والوں)نے کہا تھا کہ ہم سناتن و ویدک دھرم کے ماننے والوں کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ہندوتوا کا نظریہ بھی ویسے ہی مذہبی ٹچ و عدم برداشت پہ مبنی ہے جیسے دو قومی نظریہ!
    حال آں کہ بات صرف اتنی سی ہے کہ اسی خطے میں سناتنی اور مسلم سینکڑوں سالوں سے اکٹھے رہ رہے تھے اور دنیا کی 25 فی صد دولت بھی پیدا کر رہے تھے،پھر ایک تیسری قوت(برطانوی سامراج)آئی اور اس نے ان کو مذہب کے نام پہ لڑوانا شروع کیا،اور یہ آج تک لڑ رہے ہیں،اس سلسلے میں بھارتی مورخین رام پنیانی،ہربنس مکھیا اور رومیلا تھاپڑ کو سنا جا سکتا ہے۔

     جنگی بیانیے والے صاحب  نے اپنے یوٹیوب چینل پہ آکر قوم کو مبارکباد دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غزوہِ ہند کی سعادت نصیب فرمائی،وہ جنگ جس کے لیے صحابہ کرام ؓاور مسلمان چودہ سو سال سے انتظار کر رہے تھے،آخری دور کی وہ فیصلہ کن جنگ جس میں سیدی رسول اللہ ﷺکی فوج ہند کے مشرکوں سے تصادم کرے گی اور اُن کے حکمرانوں کو زنجیروں میں لپیٹ کر لائے گی،پھر جب یہ لشکر پلٹے گا تو شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پائے گا۔

    غزوہِ ہند سے متعلق احادیث پر جناب اسماعیل حسنی صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس آرٹیکل میں جناب اسماعیل حسنی صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ"غزوہ ہند کی روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے کمزور ہے۔ محدثین کی اکثریت نے اسے ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے۔ لہٰذا، اسے صحیح حدیث نہیں کہا جاسکتا، نہ ہی اسے تاریخی یا شرعی دلیل کے طور پر پیش کرنا درست ہے۔ اگر درست مان بھی لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اسے گزرے ہوئے فتوحات کے واقعات کی ضمن میں مانا جاسکتا ہے"۔

    مختصر یہ کہ یہ جنگیں خالصتاً وطنی، جغرافیائی، سیاسی اور مفادات کی جنگیں ہیں، انھیں کفر و اسلام کا معرکہ ثابت کرنا کالونیل کمیونل منٹیلٹی (سامراجی فرقہ وارانہ ذہنیت) کی عکاسی ہے،پھر آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اقلیتوں سے ہمارا سلوک بہت اچھا ہے!
    اسی طرح سرحد کی دوسری طرف بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں وہ بھی جذبات میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے دین اسلام پہ طعن و تشنیع کرنا شروع کردیتے ہیں،اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں جن کی وفاداری اپنے مادرِ وطن سے ہے۔

    اس کا حل یہ ہے کہ سامراجی فرقہ وارنہ ذہنیت سے نکل کر سوچیں۔سوال کریں کہ کیا یہ جنگیں مذہبی ہیں؟اگر نہیں تو ان کو مذہبی بنانے والوں کے کیا مقاصد ہے؟کیا وہ سامراجی ایجنڈے کی تکمیل تو نہیں کر رہے؟تشدد،انتہا پسندی والی ذہنیت اور مذہب کی بنیاد پہ نفرت درست نہیں ہے۔اسلام میں کسی سےنفرت کا صرف ایک پیمانہ ہے وہ ہے"ظلم"۔

    یہ امر توجہ طلب ہےکہ دین اسلام وطن سے محبت اور دفاع سے نہیں روکتا،اس لیے جب کبھی آپ پر جنگ مسلط کر دی جائے یا آپ کی بقا کو خطرہ لاحق ہو، تو اپنے وطن کا دفاع سینہ تان  کر کریں۔ 

    اس سلسلے میں رسول پاک ﷺ کے اُسوہ حسنہ سے بھی راہ نمائی لی جا سکتی ہے،جس میں آپ ﷺنے ہجرت مدینہ طیبہ کے فوری بعد مشرکین،یہود اور مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا ،جسے تاریخ میں میثاقِ مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔جس کے تحت تینو ں فریق اس کے پابند تھے کہ وہ سب مل کر دفاع وطن(ریاستِ مدینہ)کا فریضہ سرانجام دیں گے۔
    (سیرت ابن ھشام۔ج2،ص123,اسلامی کتب خانہ)
    Share via Whatsapp