قوم کو اندھیروں میں رکھنے کے بجائے حقیقت تسلیم کرنا چاہیے
جب کوئی نظام، حکومت، یا ادارہ اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے انہیں چھپانے کے لیے عوام کو الجھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی سب سے ....

قوم کو اندھیروں میں رکھنے کے بجائے حقیقت تسلیم کرنا چاہیے
تحریر: محمد اصغر خان سورانی، بنوں
جب کوئی نظام، حکومت یا ادارہ اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے انھیں چھپانے کے لیے عوام کو اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی سب سے بہترین عکاسی "ڈیڈ ہارس تھیوری"کرتی ہے۔ یہ طنزیہ استعارہ ہے جو واضح کرتا ہے کہ کس طرح طاقت ور گروہ اپنے مردہ گھوڑے (ناکام پالیسیوں، نظاموں یا پروجیکٹس) کو زندہ ثابت کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے حقائق کو چھپانے اور اس سے انکار کی یہ المناک داستان صرف ایک مذاق نہیں، بلکہ انسانیت کو لاکھوں کروڑوں کے نقصان میں دھکیلنے والا ایک منظم جرم ہے۔ پاکستان میں مختلف حکومتوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے نت نئے بہانوں، بے مقصد کمیٹیوں اور عارضی حیلوں بہانوں کا سہارا لیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیسے ظالم نظام اپنی بقا کے لیے "اصلاحات کے ذریعے یا چندچہروں کو تبدیل کرکے مردہ نظام " کو نئی زندگی دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں حکمرانوں نے عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں پیچیدہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ جب کسی پالیسی یا نظام کی موت واضح ہو جائے تو اسے ترک کرنے کے بجائے اس پر مزید وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔عربی ادب میں دو ضرب المثل مشہور ہیں ۔ایک نظرية الحصان الميت (ڈیڈ ہارس تھیوری، ایک مردہ گھوڑے کو نئے سازوسامان سے سجانا ہے اور اس کو مردہ تسلیم نہ کرنا ) اور دوسرا ، ركوب الحمار الميت (مردہ گدھے پر سوار ہونا" ناکام چیز کو جبراً جاری رکھنا) نوآبادیاتی دور میں برطانیہ نے ہندوستان میں اپنی ناکام پالیسیوں کو چلانے کے لیے نئے قوانین بنائے، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ استعمار کا گھوڑا طویل عرصے سے مردہ ہو چکا تھا۔ آج بھی جمہوری ممالک میں یہی کھیل دہرایا جاتا ہے، ناکام معاشی پالیسیوں کو "ترمیمی پیکجز" کا نام دے کر عوام کو بہلایا جاتا ہے۔
ناکام پالیسیوں کے لیے نئی اصطلاحات گھڑنا: جب کسی پالیسی کی ناکامی عیاں ہوجائے تو اسے چھپانے کے لیے ایک نیا نام دے دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کئی دہائیوں سے موجود ہے، لیکن ہر حکومت اس کی حقیقت کو ماننے کے بجائے "سرکلر ڈیٹ" اور "ڈیمانڈ اینڈ سپلائی گیپ" جیسے الفاظ کا سہارا لیتی ہے۔ اسی طرح، مہنگائی کی سنگین صورتِ حال کو "عالمی معاشی بحران" سے جوڑ کر اصل حکومتی نااہلی کو چھپایا جاتا ہے۔ کرپشن کو "گورننس کے مسائل" کہہ کر عوام کی توجہ ہٹائی جاتی ہے۔
عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے جذباتی نعرے: جب کسی معاملے پر حکومت کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہ ہو تو وہ عوام کو جذباتی اور غیرمتعلقہ بیانیوں میں اُلجھا دیتی ہے۔ پاکستان میں جب مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے تو "قومی سلامتی" اور "دشمنوں کی سازش" جیسے نعرے بلند کر دیے جاتے ہیں۔ جب کسی حکومت کی کرپشن بے نقاب ہوتی ہے تو وہ "جمہوریت خطرے میں ہے" کا بیانیہ گھڑ لیتی ہے۔ جب معیشت سنبھلنے میں ناکام ہوتی ہے تو "سابقہ حکومتوں کی غلطیاں" الزام تراشی کے لیے بہترین ہتھیار بن جاتی ہیں۔
نااہلی کا اِلزام چھوٹے اہلکاروں پر ڈالنا: ہر بڑی ناکامی کی ذمہ داری ہمیشہ کسی چھوٹے بیوروکریٹ یا پرانی حکومت پر ڈال دی جاتی ہے۔ سیلاب کے دوران حکومتی نااہلی کے بجائے "ضلعی انتظامیہ کی سستی" کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ پولیس ریفارمز میں ناکامی کو "چند کرپٹ افسران" کا مسئلہ بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔ معیشت کی تباہی کو "بیرونی سازش" سے جوڑ کر حکومتی نالائقی کو چھپایا جاتا ہے۔
مسئلے کو دَبانے کے لیے کمیٹیاں اور انکوائریاں: جب عوام کسی مسئلے پر سخت ردِعمل دیں تو حکومت فوری طور پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دیتی ہے، جس کا مقصد صرف وقت گزارنا ہوتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات آج تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔ بلدیاتی نظام کی بہتری کے لیے بننے والی کئی کمیٹیاں اپنی سفارشات کے باوجود عمل درآمد سے محروم رہیں۔ شوگر اسکینڈل، پیٹرول بحران اور ایل این جی اسکینڈل پر بننے والی کمیٹیوں کی رپورٹس کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔
اِصلاحات کے نام پر مزید تباہی: ناکام نظاموں کو زندہ رکھنے کے لیے حکومت اصلاحات کا نعرہ لگاتی ہے، مگر حقیقت میں صورتِ حال مزید بگڑ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر تعلیمی نصاب میں اصلاحات کے نام پر ہر چند سال بعد تبدیلیاں کی جاتی ہیں، مگر معیارِ تعلیم مزید گِرتا جا رہا ہے۔ نصاب کی فرسودگی پر کروڑوں کی رپورٹس بنائی گئیں، مگر حکمرانوں نے "نئے کورسز" اور "ٹیچر ٹریننگ" کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا۔ صحت کے شعبے میں "ہیلتھ کارڈ" جیسے نمائشی منصوبے تو لائے جاتے ہیں، مگر بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ ریلوے اور پی آئی اے کی نجکاری کا شور مچایا جاتا ہے، مگر خسارے کی اصل وجوہات حل نہیں کی جاتیں۔
وطنِ عزیزپاکستان میں ہر شعبے میں ناکام پالیسیوں کو مصنوعی طریقوں سے زندہ رکھا جاتا ہے۔ یہاں ہر حکومت نئے وعدوں کے ساتھ آتی ہے، مگر حقیقت میں وہی فرسودہ ڈھانچے اور نعروں کو دہرایا جاتا ہے۔ مثلاً
بجلی کا بحران — نئے منصوبوں کا جال
پاکستان میں بجلی کی قلت کوئی نیا مسئلہ نہیں، مگر ہر حکومت اسے "نئے منصوبوں" اور "آئی پی پیز " کے نام پر مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ سرکلر ڈیٹ کا حجم بڑھتا جا رہا ہے، مگر مستقل حل کے بجائے عوام پر بجلی کے نرخ بڑھانے کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ حکمران "زیرولوڈشیڈنگ" کے وعدے تو کرتے ہیں، مگر گرمیوں میں عوام گھنٹوں بجلی سے محروم رہتی ہے۔
معیشت کا دائرہ — آئی ایم ایف اور قرضوں کا چکر
ہر حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ نئے شرائط پر نئے معاہدے کرتی ہے، مگر قرضے کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ "پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا" کی تسلی دی جاتی ہے، مگر ڈالر کی قیمت ہر روز آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کی جاتی ہے، مگر غریب کو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ یہاں معیشت کے مردہ گھوڑے کو قرضوں کے "کھیتوں" میں چَرایا جاتا ہے، جب کہ حقیقی اصلاحات نظرانداز ہوتی ہیں۔
پولیس نظام — اصلاحات کا ڈرامہ
پولیس کے نظام میں اصلاحات کا اعلان ہر نئی حکومت کرتی ہے، مگر حقیقت میں وہی پرانا 1861ء والا ڈھانچہ برقرار رہتا ہے۔ ماڈل پولیس اسٹیشنز کا اعلان تو کیا جاتا ہے، مگر عام شہری کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
عدالتی اور سیاسی نظام — برطانوی ورثے کا بوجھ
پاکستان کا عدالتی نظام اور قوانین برطانوی دور کی بری یادیں ہیں، جو غلام قوم کے لیے بنائے گئے تھے۔ فرسودہ عدالتی نظام، انصاف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے اور دورِحاضرکے تقاضوں کو مدنظررکھے بغیر اس کی فعالیت ممکن نہیں۔ سیاسی نظام بھی اسی طرح فرسودہ ہے، جو عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے ذاتی مفادات کا محافظ بن چکا ہے اور صرف چند گھرانے پورے ملک کے نمائندے بن بیٹھے ہیں جو ہر بار نئے نعروں کے ساتھ آتے ہیں اور عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔
تعلیم کا بحران — فرسودہ نصاب کا تسلسل
لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام بھی فرسودہ ہے، جس کا مقصد ایک طرف قوم کو قدیم علوم اور جدید علوم کے نام پر تقسیم کر کے ان میں فکری اختلاف پیدا کرنا ہے۔قدیم علوم کے حامل طبقے کو مسلک کے اختلاف پر مختلف فرقوں میں تقسیم کر نا ہے اورجدید علوم کے طبقے کوانگلش میڈیم اور اردو میڈیم ،گورنمنٹ سکولزاور پرائیویٹ سکولزاور او(O) لیول،ایچی سن کالجز،سٹی سکولز کالجز اور ملکی نصاب تعلیم کے نام پر تقسیم کر کے ایک طرف حکمران طبقہ اور دوسری طرف بے بس کلرک طبقہ پیدا کرنا ہے۔گویا اس نظام تعلیم سے شعور اور قومی وحدت تو درکنار "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی فرعونی پالیسی کا تسلسل ہے، جس کے ذریعے سے فرعون نے بنی اسرائیل کو تقسیم کر کے اپنی حکمرانی کو مضبوط کیا۔ اس لیے تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لیے جدید تعلیمی نظام کی ضرورت ہے،مگر حکمران اسی مردہ گھوڑے پر سوار ہیں جو "نصاب کی تبدیلی" کے نام پر کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے۔
خلاصہ کلام — مردہ گھوڑے کو دفنائیں!
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ناکام پالیسیوں کو جاری رکھنے کے بجائے ان سے سبق سیکھ کر نئے حل تلاش کرنے چاہئیں۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو ضروری ہے کہ غیر حقیقت پسندانہ نعروں کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔ عوام کو سیاسی نعروں کے بجائے حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ مردہ گھوڑے کو زندہ ثابت کرنے کی ناکام کوششوں کے بجائے اسے دفنایا جائے اور نئے راستوں کی تلاش کی جائے، ورنہ ہر حکومت صرف ایک ہی پرانی کہانی دہراتی رہے گی۔