وطن عزیز کا حقیقی دشمن : نوآبادیاتی نظام کا تسلسل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • وطن عزیز کا حقیقی دشمن : نوآبادیاتی نظام کا تسلسل

    پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو عیاں ہوتا ہے کہ اس خطے پر ہمیشہ بیرونی طاقتوں کے سایے منڈلاتے رہے ہیں۔ عام تصور میں بھارت، روس اور ایران جیسے ممالک

    By Kashif Hassan Published on May 31, 2025 Views 313

    وطن عزیز کا حقیقی دشمن : نوآبادیاتی نظام کا تسلسل 

    تحریر:  کاشف حسن۔ پشاور


    پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو عیاں ہوتا ہے کہ اس خطے پر ہمیشہ بیرونی طاقتوں کے سایے منڈلاتے رہے ہیں۔ عام تصور میں بھارت، روس اور ایران جیسے ممالک کو پاکستان کے دشمنوں کی صف میں رکھا جاتا ہے، جب کہ برطانیہ اور امریکا کو دوست ممالک تصور کیا جاتا ہے، لیکن گہری نظر سے دیکھیں تو یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ عصرِحاضر میں پاکستان کا اصل دشمن انھی دوست ممالک کا دِیا ہوا سیاسی و معاشی نظام ہے جو ہمیں دو سو سالہ برطانوی استعمار سے میراث میں ملا اور آج تک یہاں کے عوام کی گردنوں پر سوار ہے۔ یہ نظام پاکستان کی اکثریتی آبادی کو معاشی محرومی، سماجی بے انصافی اور سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ 

    زیرنظر مضمون میں اس استعماری نظام کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح اس نے وطنِ عزیز کے سیاسی ، معاشی، سماجی پہلوؤں کو مفلوج کر رکھا ہے۔ 

    تاریخی پس منظر

    پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی مسائل کی جڑیں براہِ راست برطانوی نوآبادیاتی نظام سے جا ملتی ہیں۔ برصغیر جب برطانوی استعمار کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، تو یہاں ایک ایسا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا جو بنیادی طور پر استحصالی نوعیت کا تھا۔ اس نظام کا واحد مقصد برطانیہ میں جاری صنعتی انقلاب کو خوراک فراہم کرنا اور برطانوی خزانے کو بھرنا تھا۔ یہ نوآبادیاتی نظامِ حکمرانی مقامی وسائل کے بے رحمانہ استحصال، عوام کی فاقہ کشی اور معاشی عدم مساوات کو ہوا دینے کا ذریعہ بنا۔


    1947ءمیں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو افسوس ناک طور پر یہ آزادی محض جغرافیائی حدود تک محدود رہی۔ برطانوی غلامی سے نکلنے کے باوجود معاشی اور سماجی نظام اسی نوآبادیاتی سانچے میں ڈھلا رہا، جس نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو نہ صرف برقرار رکھا، بلکہ مزید گہرا کر دیا۔ چند بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ایک محدود اشرافیہ نے ملک کے قیمتی وسائل پر اپنا تسلط جمالیا، جس کے نتیجے میں عام پاکستانی آہستہ آہستہ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستا چلا گیا۔

    سیاسی نظام کا بحران

    پاکستان کا سیاسی نظام جو ظاہری طور پر جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، حقیقت میں جاگیردارانہ اور اشرافیہ پر مبنی ڈھانچے کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں اور بااثر حلقوں کی محض کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئی ہیں، جنھیں اپنے آقاؤں کے مفادات کے مطابق ناچنا پڑتا ہے۔ اس سیاسی استبداد کے نظام میں عوام الناس کا سیاسی عمل میں کوئی معنی خیز کردار باقی نہیں رہا۔ انتخابی عمل اَب محض ایک شکلی کارروائی میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں دولت اور اقتدار کی بدولت ہی فیصلے رقم کیے جاتے ہیں۔اس کھوکھلے نظام میں عام شہری کی آواز اور اس کی حقیقی نمائندگی کا کوئی تصور ہی نہیں رہا۔ سیاسی قوتیں اپنی توانائی اور وسائل صرف اقتدار کے حصول اور اس کی بقا پر صرف کرتی ہیں، جس کی زَد میں عوامی فلاح و بہبود کے تمام منصوبے دم توڑ دیتے ہیں۔

    معاشی نظام اور اَثرات

    پاکستان کا معاشی ڈھانچہ بدستور نوآبادیاتی میراث کا آئینہ دار ہے۔ وسائل کی بے دریغ اور غیرمنصفانہ تقسیم، جاگیردارانہ نظام کی جکڑ اور سرمایہ دارانہ استحصال نے معاشرے میں ایسی معاشی خلیج پیدا کر دی ہے، جس کی گہرائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی معاشی حکمت عملی اور پالیسی سازی عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں رہن ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے اپنی مشروط امداد کے ذریعے ملکی معیشت کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں اور ایسی سخت شرائط مسلط کرتے ہیں، جن سے عوام کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ معاشی غلامی کے اس ناسور نے ملک کی خودمختاری اور اقتصادی آزادی کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے، جس سے قومی فیصلہ سازی کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔


    سماجی ناانصافی اور طبقاتی تقسیم

    پاکستانی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کی کھائی مسلسل گہری ہوتی جا رہی ہے، جس کی وُسعت اَب خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں کا منظرنامہ اس معاشرتی تقسیم کی عریاں تصویر پیش کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف اشرافیہ کے آبادی والے پوش علاقے عالمی معیار کی جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہیں، وہیں انھی شہروں کی کچی آبادیاں اور پس ماندہ علاقے انتہائی افلاس، گندگی، جہالت اور وَبائی امراض کا کرب ناک منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ بڑھتا ہوا طبقاتی فاصلہ ملک کے اندر سماجی اشتعال، معاشرتی بگاڑ اور تنازعات کی آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہا ہے، جس سے ملکی سلامتی اور قومی یکجہتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔


    بین الاقوامی کردار اور حقیقی خودمختاری

    کالونیل نظام کی گہری چھاپ پاکستان کے بین الاقوامی کردار پر بھی واضح نظر آتی ہے، جہاں ملک خودمختار فیصلوں کے بجائے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ سردجنگ کے ادوار میں پاکستان نے امریکا اور مغربی بلاک کے اشاروں پر سوویت یونین کے خلاف مؤقف اختیار کر کے اپنی قومی خودمختاری کو مختلف مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ سازشی کھیل مشرقِ وُسطیٰ کے معاملات میں بھی جاری رہا، جہاں ایران کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ہاتھوں استعمال کیا گیا، جس نے ملک کو نہ صرف خارجی سطح پر نقصان پہنچایا، بلکہ داخلی طور پر بھی لازوال مذہبی تنازعات اور عدم استحکام کا شکار بنا دیا۔

    اپنے اہم ترین ہمسایہ ملک ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں بھی پاکستان کا رویہ تعمیری، تجارتی تعاون اور باہمی خوش حالی کی بجائے کشمیر جیسے معاملات پر مسلسل محاذ آرائی پر مرکوز رہا ہے۔ 


    حقیقی دشمن کی پہچان

    مندرجہ بالا حقائق یہ حقیقت عیاں کرتے ہیں کہ پاکستان کا اصل اور حقیقی دشمن داخلی سیاسی و معاشی نظام ہے جو برطانوی سامراجیت کے زہریلے پودے کی طرح ہماری سرزمین پر پروان چڑھا ہے۔ یہ استعماری نظام، جو آزادی کے بعد بھی اپنی جڑیں مضبوط کرتا گیا، ملک کے عوام کو بنیادی حقوق و آزادیوں سے محروم رکھنے کا مجرم ہے اور یہی وہ نظام ہے جس نے قومی دولت کو بڑی بے رحمی سے لوٹا ہے۔ پاکستان کے لیے حقیقی اور معنی خیز آزادی کا سورج تب ہی طلوع ہوسکتا ہے جب ہم اس نوآبادیاتی اور استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کی زنجیروں سے نجات حاصل کریں، جو صرف خارجی دشمنوں کا ڈراوا دے کر اپنے وجود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے عوام کو اَب گہری بصیرت کے ساتھ یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی اصل جنگ بیرونی دشمنوں سے نہیں، بلکہ اس اندرونی نظام سے ہے، جس نے ہمیں نسل در نسل معاشی، سماجی اور سیاسی غلامی کی دلدل میں جکڑ رکھا ہے۔

    Share via Whatsapp