سرمایہ دارانہ جمہوریت اور معاشی استحصال
سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حیثیت ایک کھیل تماشے کی ہے جس میں عوام کو محض اپنے استحصال کرنے والوں کے چناءو کا موقع دیا جاتا ہے
سرمایہ دارانہ جمہوریت اور معاشی استحصال
سماج میں ہر فرد دوسرے فرد سے کسی نہ کسی معاہدے کی صورت میں منسلک ہوتا ہے۔آجر اور اجیر،اولاد اور والدین،استاد اور شاگرد ،میاں اور بیوی ،ڈاکٹراورمریض ،دوکاندار اور گاہک،کمپنی اور کلائنٹ ، حکمران اور عوام غرض ہر ایک فرد بہت سے دائروں میں بیسیوں معاہدات کا اسیر ہے. یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک سماج ایک جسد واحد کی حیثیت رکھتا ہے.
ایک صحت مند صالح اور ترقی یافتہ سماج میں یہ معاہدات تعاون باہمی کے اصول پر تشکیل پاتے ہیں اور عدل و مساوات کی روح ان میں کار فرما رہتی ہے جبکہ ایک بیمار فاسد اور غیر ترقی یافتہ سماج میں ان معاہدات کی نوعیت ظلم ، جبر اور طبقاتیت کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔اسی لئےحضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کسی بھی معاہدے کو جو جبر اور بے شعوری کی بنیاد پر ہو ناجائز اور بربادی کا سبب تصور کرتے ہیں
سماجی معاہدات میں سے معاشی سرگرمیوں اور باہمی لین دین سے متعلق معاہدات نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ مختلف معاشی جماعتوں کے باہم متصادم معاشی حقوق اور مفادات ،سماج میں بہت سے تضادات اور جھگڑوں کو جنم دیتے ہیں۔ جس کےتدارک کے لئے عادلانہ بنیادوں پر قوانین و ضوابط کی تشکیل اور مساویانہ بنیادوں پر تنفیذ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ایک تاجر کا مفاد اگر اس میں ہے کہ وہ خوب مہنگے داموں اشیاء فروخت کرے تو خریدار اسے اپنا نقصان تصور کرتا ہے ۔اسی طرح سے صنعتکار سستے سے سستا مزدور حاصل کرنا چاہتا ہے تو مزدور اپنا حق سمجھتا ہے کہ بہتر سے بہتر اجرت کو یقینی بنائے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں تمام تر معاشی سرگرمیاں محض سرمائے ہی کو محور و مرکز تسلیم کرکے منظم کی جاتی ہوں وہاں معاشی حقوق کا یہ ٹکراو صنعتکاروں اور جاگیر داروں کی اجارہ داری نیز کمزور معاشی جماعتوں کے استحصال پر منتج ہوتا ہے۔سرمائے کی طاقت پارلیمینٹ ، عدلیہ اور بیوروکریسی جیسے اداروں پر سرمایہ دار طبقے کی گرفت کو یقینی بنا دیتی ہے حتی کہ مذہب اور اصلاح کے بہت سے علمبردار بھی ان معاشی اجارہ داروں کے گھر کی لونڈی قرار پاتے ہیں ۔
پارلیمینٹ جس کی بنیادی ذمہ داری ہی عدل اجتماعی کے اصول پر عوام الناس کےمفاد میں قانون سازی کو یقینی بنانا ہے
وہاں قانون سازی کی طاقت ایک ہی مخصوص طبقے کے ہاتھ آجانے سے تمام قوانین اسی ایک گروہ کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں۔ عوام الناس کے مفاد میں قانون سازی کے لئے کی جانے والی ہر کاوش کو یا تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے یا پھر بیوروکریسی اور عدلیہ کے زریعے اسے غیر موثر کرنے کا مکمل اہتمام موجود ہوتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈھنڈورا عوامی مفاد کا پیٹا جاتا ہے ،نعرے کمزور طبقے کے حقوق کے لگتے ہیں اور وعدے ترقی اور خوشحالی کے کئے جاتے ہیں مگربننے والا ہر قانون بالآخر عوام دشمن ہی ثابت ہوتا ہے۔ حالیہ ادوار میں مراعات یافتہ طبقے کی مزید مراعات میں اضافے ،نااہل قرار دئے گئے افراد کو عہدوں پر براجمان رکھنے ،اراکین پارلیمنٹ پر اپنی دولت اور اثاثوں کے اظہار سے متعلقہ الیکشن قوانین میں ترامیم،اور پلی بار گینگ (کرپشن کے مرتکب مجرموں سے مخصوص شرح فیصد وصول کرکے بقیہ کرپشن کو جائز قرار دینے) جیسے قوانین اس استحصالی طبقے کی پارلیمینٹ پر مضبوط گرفت کا نہایت واضح اظہار ہیں ۔
یہ واضح ہے کہ وطن عزیز کی تمام مروجہ سیاسی و مذہبی پارٹیاں باقائدہ طے کر چکی ہیں کہ پارلیمینٹ میں نمائندگی محض سرمایہ دار اور جاگیردار کا ہی حق ہے ۔چناچہ ہر پارٹی ٹکٹ دینے کے لئے الیکٹیبلز (وہ افراد جو سرمائے اور اثرورسوخ کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے نام پر اسی طبقہ کے افراد کی متلاشی ہوتی ہے۔ لہذایہ "الیکٹیبلز" جس پارٹی کا رخ کرلیں اسی کے وارے نیا رے ہو جاتے ہیں ۔پھر میڈیا پر تشہیر کے لئے درکار ہو شربا اخراجات کے لئے بھی اسی طبقے کے افراد کی اعانت درکار ہوتی ہے۔
یہ الیکٹیبلز ہماری سوسائٹی کی پانچ فیصد سے بھی کم آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں باقی پچانوے فیصد کی نمائندگی پارلیمینٹ میں کیسے ہوگی اور اس کی عدم موجودگی میں قانون سازی کس طرح سے تمام معاشی جماعتوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
مزدور اور کسان طبقہ جس کی آبادی نوےفیصد سے بھی زیادہ ہے اس کی نمائندگی اسمبلی میں سرے سے موجود ہی نہیں جبکہ صنعتکاروں تاجروں اور جاگیرداروں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کم اِز کم بیس گنا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کے نام پرمخصوص نشستیں حاصل کرنے والے بھی درحقیقت اسی صنعتکار اور جاگیردار طبقے کےہی نمائندہ ہوتے ہیں۔اگرچہ تمام سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر عوامی نمائندگی کے دعوے کرتی ہیں مگر ایک جاگیردار جو اسمبلی کا ممبر ہے اپنے علاقے کے لاکھوں ہاریوں کی نمائندگی کا حق کیسے ادا کر سکتا ہے جبکہ دونوں کے مفادات باہم متصادم ہیں۔ایک صنعت کار ان ہزاروں مزدوروں کے حق میں قانون سازی کیونکر ہونے دے گا جن کے حقوق کا وہ ازخود غاصب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان قوانین کے زیر سایہ طے پانے والے معاشی معاہدات طبقاتیت کے فروغ اور معاشی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کا باعث ہوتے ہیں ۔ان یک طرفہ معاہدوں میں خسارہ صرف کمزور ہی کا مقدر ہوتا ہے. آزاد معیشت کے انحطاط، متوسط کاروباری طبقے کے زوال ،مزدوروں اور کسانوں پر قرضوں کے بڑھتے ہوئے انبار اور آسمانوں کو چھوتی غربت و افلاس کی سطح، جبر پر مبنی انہی معاہدات کے بھیانک مظاہر اور عدم مساوات پر مبنی قوانین کے خوفناک نتائج ہیں
حقیقت تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت محض بالا دست طبقات کا ایک ایساکھیل تماشا ہے جس میں عوام الناس کو صرف یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے استحصال کرنے والوں کا خود انتخاب کریں ۔ کیا المیہ ہے کہ وہ مزدور اور کسان طبقہ جو سوسائٹی میں دولت پیدا کرتا ہے ، جسے احادیثِ نبویہ میں اللہ کا دوست کہا گیا ہے ، معاشرے کی تمام خوشحالی جس کی مر ہون منت ہے، پارلیمینٹ میں اس کی نمائندگی ہی نہیں ہوتی۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی رح اسی محنت کش طبقے کو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں۔حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رح فرماتے ہیں کہ "اب ہمیں مذہبی لڑائ کی بجائے زمیندار کاشتکار جیسے سوالات پر بحث کرنی چاہئے۔"
یقینا یہ بحث صرف اسی صورت میں نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب تمام معاشی گروہوں کی موثر نمائندگی پارلیمینٹ میں موجود ہو ۔جو اپنی جماعتوں کے حقوق کے تحفظ اور اسے اجتماعی قومی مفاد سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔
اسی لئے حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رح پارلیمینٹ میں مختلف اقتصادی اصناف مثلاً صنعتکار،کاریگر،کاشتکار اور مزدور کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا تصور دیتے ہیں تاکہ حقیقی جمہوریت کے ثمرات عوام الناس تک پہنچ سکیں ۔ اس طرح معاشی نظام کی غیر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تشکیل کی ضرورت واضح کرتے ہیں تاکہ اجارہ داری اور طبقاتیت کو ختم کرکے تعاون باہمی اور عدل و مساوات کے اصول پر سوسائٹی کی تشکیل ممکن ہو سکے ۔یہی دین اسلام کا مقصد بھی ہے اور یہی عصر حاضر کا تقاضا بھی ہے۔