ووٹر کو آزادی اور شعور دو
ووٹر کو شعور اور معاشی آزادی دئے بغیر جمہوریت کا تصور محض ایک ڈھکوسلا ہی رہے گا اور الیکشن کی حیثیت ایک کھیل کی ہی رہے گی۔
ووٹر کو آزادی اور شعور دو
الیکشن کی گہما گہمی ختم ہوچکی ہے۔اس دوران جو بڑے بڑے نعرے سننے میں آئے ان میں ووٹ کی حرمت، ووٹر کو عزت دینے اور ووٹ کو امانت سمجھنے جیسے سلو گن شامل ہیں۔بجائے اس کے کہ نظریات اور منشور پر گفتگو ہوتی۔زور اس بات پر رہا کہ کون زیادہ کرپٹ ہے،کون ایسٹیبلشمنٹ میں ہے اور کون محروم ۔ میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور گالی گلوچ کا کھیل اس مہارت سے کھیلا گیا کہ کسی نے یہ سوچنے یا تجزیہ کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ مملکت پاکستان کو درپیش اصل مسائل کیا ہیں اور وہ کیسے حل ہونگے ،غربت کیسے ختم کی جائیگی، جہالت دور کرنے کے لئے کیا حکمت عملی ہوگی بین الاقوامی سطح کے چیلنجز کا سامنا کیسے کیا جائیگا اور آیا کسی پارٹی کے پاس درپیش چیلنجز سے نپٹنے کی اہلیت ہے بھی یا نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عام انسانون کو پست ترین سطح پر لے آتا ہے۔ لہذا اپنی چھوٹی اور سطحی خواہشات سے آگے بڑھ کر سوچنے کی صلاحیت جاتی رہتی ہے۔ رد عمل اور جذباتیت عروج پر ہو تی ہے اتنی تنگ نظری پیدا کردی جاتی ہے کہ وقتی فائدہ ہی غنیمت دکھائی دیتا ہے ۔ مایوسی اور بے چار گی اس درجہ ہوتی ہے
کہ کسی اعلی مقصد کا حصول ایک ناممکن العمل امر معلوم ہوتا ہے۔ اور ایک لیڈر کی دوسرے پر فوقیت محض اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔"او جی دوجیاں نالوں تے چنگا اے ناں" ( دوسروں سے تو بہتر ہے نا) ۔
اس سارے عمل میں میڈیائی جادوگروں کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسے شاید آزاد میڈیا کہا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اسے ذہنوں کو غلام بنانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔اسی میڈیا کے ذریعے سے ، نان اشوز کو اشوز بنا نا،مسخ شدہ معلومات کو ذہنوں میں ایک خاص ترتیب سے راسخ کرنا اورایک طے شدہ ایجنڈے پر مسلسل پراپیگنڈہ ووٹر کی ذہن سازی کا ایک ایسا کارگر طریقہ ہے جس سے مرضی کے نتائج تک پہنچا جاتا ہے ۔
مد مقابل کی کسی ایک کمزوری کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹنا اور اتنی دھول اڑانا کہ اس کے علاوہ کچھ بھی دکھائ نہ دے اور ووٹر صرف اسی پہلو کو پیش نظر رکھ کر اپنی رائے قائم کرے ،یہی الیکشن کے بازی گروں کی کاری گری ہوتی ہے اور اسی مت مار حکمت عملی کو جمہوری شعور دینے کا نام دیا جاتا ہے۔
صبح سے شام تک اپنی روزی روٹی کی فکر میں رہنے والا ووٹر، جو اپنی تمام تر رائے میڈیا کے اسی پراپیگنڈے کے نتیجے میں بناتا ہے، کسی طرح سے بھی درست تجزیہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی صائب رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔
ووٹر کو متاثر کرنے میں برادری ،مسلک اور مزدوروں اور کسانوں، سرمایہ دار آجر اور جاگیردار کے دبائو بھی بڑے کارگر ہوتے ہیں مگر معاشی بدحالی اور افلاس کے شکار ووٹر کی بھوک سے براہ راست کھلواڑ کرنے کا مرحلہ سب سے زیادہ نتیجہ خیز ہوتا ہے اور ہزار دو ہزار روپے کے عوض اس کی رائے کو با آسانی خریدا جا سکتا ہے چناچہ ہر ایک حلقہ انتخاب میں ہزار ہا ووٹروں کا منہ اسی طریقہ واردات سے بند کردیا جاتا ہے ۔
ہمارے انتخابی نظام کی اس سے بڑھ کر اور پستی کیا ہوگی کہ ہر حلقہ انتخاب میں خرید و فروخت کی اسی صلاحیت کے حامل طبقے کو ٹکٹ دئے جاتے ہیں ووٹر کی رائے کے ان بیوپاریوں کو الیکٹیبلز کے خوبصورت عنوان سے پکارا جاتا ہے اور یہی لوگ ہر پارٹی کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں کیونکہ جیت انہی کا مقدر ہے اور جس طرف کا یہ رخ کریں اسی پارٹی کا ستارہ بام عروج پر ہوتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام عوامل کی موجودگی میں آزادانہ رائے کے تصور کی کیا حقیقت ہے ووٹ کو کیونکر ایک امانت تصور کیا جا سکتا ہے اور کیا ووٹ کو حقیقی عزت دی جا سکتی ہے
سماجی حرکیات سے نابلد رکھ کر ہم ایک ووٹر کو صاحب الرائے کیسے بنا سکتے ۔ معاشی مسائل میں الجھے ایک ذہن سے قومی درجے کے مسائل پر رائے دینے کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے ۔ ۔کیاایک ووٹر، آلہ کار اور ایجنڈے پر مبنی پراپیگنڈے کے حصار سےباہر نکل کر سوچ سکتا ہے ۔ کیا اپنے ہی معاشی آقائوں کے خلاف رائے دینا ممکن ہو تا ہے ۔
ایسا نہیں ہے تو پھر سیاسی پارٹیوں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ووٹر کی آزادانہ اور شعوری رائے کو یقینی بنانے کے اقدامات کریں ۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی پارٹیاں اس تلخ حقیقت کا ادراک کرنے اور اپنے ووٹروں میں موجود دباو ، خوف اور بے شعوری کو دور کرنے کی حکمت عملی اختیار نہیں کرتیں ۔ بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ ان کی لیڈر شپ اپنے تمام کارکنوں کو محض اپنی ذات کے گرد ہی جمع کرنے کی کوشش کرتی ہے چناچہ ان کا یہ طرز عمل اس بے شعوری میں کمی کے بجائے مزید اضافے کا باعث بنتا ہے
کسی بھی پارٹی میں قومی اور بین الاقوامی مسائل پر گفتگو کا کوئی رجحان موجود نہیں ہے۔ سٹڈی سرکلر اور سیاسی تربیت کا تصور ناپید ہے اور خدمت خلق کے اخلاق اور رویے پیدا کرنے کی کوئ حکمت عملی نظر نہیں آتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بر سر اقتدار آنے کی صورت میں عوام الناس کو خوشحالی فراہم کرنے کی کوئ حقیقی تدبیر سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی ہے۔
اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ اور عوام میں باہمی اعتماد کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے عظیم مجاہد آزادی حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رح نے اپنی بیس سالہ جلاوطنی کے اختتام پر فرما یا تھا ۔میں اپنے نوجوانوں کو ووٹ کی اہمیت سمجھانا چاہتا ہوں میں اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ووٹ محض اپنی رائے سے دیں نیز اس معاملے میں کسی بھی سماجی یا مزہبی دبائو کو یکسر نظر انداز کردیں۔
ووٹر کو شعور اور معاشی آزادی دئے بغیر جمہوریت کا تصور محض ایک ڈھکوسلا ہی رہے گا اور الیکشن کی حیثیت مسلط طبقات کے عوام کے ساتھ کھیلے جانے والے ایک کھیل کی ہی رہے گی جو سوسائٹی کو مزید تقسیم اورانتشار کا شکار کرنے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے کھیلا جا تا ہے۔