یہ نظام اک بھنور ہے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • یہ نظام اک بھنور ہے

    ملکی تاریخ میں کیسے ایک طبقہ ہر دور میں عوام کو ایک چکر میں چلائے رکھتا ہے

    By سعد میر Published on Jun 22, 2019 Views 4667

    یہ نظام اک بھنور ہے 

    سعد میر  - راولپنڈی

    ہمارے ملک کا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ تبدیلی کا منتظر رہتا ہے ،اور وہ ہر دور کےبدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنے کو پسند کرتا ہے ۔ وہ نئی تحریکات ، نعرے اور عوام میں مقبول شخصیات کو پسند کرتا ہے ۔ بس اس کی ایک شرط ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ اسی پرانے نظام کے اندر ہو۔اور ان کے مفادات ہرلحاظ سے محفوظ ہوں۔اور ان کو کوئی زک نہ پہنچے.

    آپ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ تو کریں ۔ آپ دیکھیں گے کہ تقریبآ چند سالوں کے بعد "اسلام خطرہ میں آجاتا ہے"،"غریب کی روٹی پوری نہیں ہورہی ہوتی" یا "ملکی سالمیت خطرہ میں ہوتی ہے"۔ ہر دفعہ کوئی نیا چہرہ یا نیا نعرہ سامنے آجاتا ہے۔ ایسا چہرہ یا نعرہ جو عوام میں مقبولیت رکھتا ہے ۔ ملک میں موجود نوجوانوں کی اکثریت اس کے گن گانے لگ جاتی ہے یہاں تک کہ اپنے بزرگوں کو جاہل کہنےاور سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتی۔ جبکہ ان کے بزرگ اپنی نوجوانی میں ایسے ہی کسی چہرے کے دیوانے ہوئے ہوتے ہیں اور مرتے دم تک اس کی اطاعت اپنے اوپر لازم کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ ان نوجوانوں کو بھی مستقبل میں ایسے ہی جاہل ہونے کا سرٹیفیکٹ مل جاتا ہے۔

    ہماری عوام بٹ جاتی ہے ۔ لیکن سرمایہ دار اور جاگیردار ہمیشہ متحد رہتا ہے ۔ وہ آپکو ہر دور میں حکومتی ایوانوں و ریاستی اداروں میں نظر آئے گا ۔ وہ ہر نئی تحریک میں اپنے پرانے گناہ معاف کرا کے شامل ہو جائے گا۔ ہم عوام پردہ کے سامنے تماشا کرنے والے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور متاثر ہو رہے ہوتے ہیں ۔ مگر یہ بات ہمارے ذہنوں میں کیوں نہیں آتی کہ یہ تھیٹر کس کا ہے ؟ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان تاریخ کا مطالعہ کرے ، یہ سمجھے کہ نظام کیا ہوتا ہے ، ہمارا نظام کس فکر و فلسفہ کی بنیاد پر کام کر رہا ہے ؟ کیا اس فکرو فلسفہ میں کوئی خرابی تو نہیں؟ کیا کسی ایک ادارہ میں جزوی تبدیلی لا کر طویل مدت کے لئے کوئی نتیجہ عوام کے حق میں حاصل کیا جا سکتا ہے؟ جب تک ہمارا نوجوان تحمل مزاجی کے ساتھ شعور حاصل کر کے متحد نہیں ہو گاتو درست نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔اوراگربے شعوری میں ایک خاص طبقہ کے مقاصد پورا کرتا رہے گا تو بقول عابد مکھنوی:

    نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے چال بدلے گا

    پرندے بھی وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا

    بدلنے ہیں تو دن بدلو بدلتے ہو تو ہندسے ہی

    مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا 

    اگر ہم مان لیں عابی مہینہ ساٹھ سالوں کا

    بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا

    Share via Whatsapp