آل انڈیا مسلم لیگ سے ریاست مخالف گروہوں تک - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • آل انڈیا مسلم لیگ سے ریاست مخالف گروہوں تک

    دنیا کی سیاست اور جغرافیہ ہمیشہ طاقتور قوتوں کی مداخلت اور استحصال سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی س

    By نیک الرحمٰن Published on Jun 05, 2025 Views 151

    آل انڈیا مسلم لیگ سے ریاست مخالف گروہوں تک

    تحریر :پروفیسر نیک الرحمٰن۔ پشاور 

     

    دنیا کی سیاست اور جغرافیے ہمیشہ طاقت ور قوتوں کی مداخلت اور استحصال سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی سامراجی قوتوں نے اپنا استحصالی نظام برقرار رکھنے کے لیے جو طریقہ کار متحدہ ہندوستان میں اختیار کیا تھا، وہی آج بھی استعمال ہو رہا ہے،جس طرح ہندوستان کی تقسیم کے لیے مسلم لیگ کا استعمال ہوا، اسی طرح آج پاکستان کی تقسیم کے لیے ریاست مخالف قوم پرست گروہوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ اور موجودہ پاکستان میں ریاست مخالف قوم پرست گروہوں کا اگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو سامراج کے اٹھائے گئے کچھ اقدامات واضح ہوجاتے ہیں جو اس دور میں اور آج کے دور میں مشترک ہیں۔ انھی مشترکات کی روشنی میں ہم ان تحریکوں کی ساخت اور نتائج کا بہتر جائزہ لے سکتے ہیں۔

    ناقابلِ کنٹرول اکائی کو تقسیم کے ذریعے کنٹرول کرنا:

    پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور اس کی بڑھتی ہوئی آبادی اسے بین الاقوامی سامراجی قوتوں کے لیے مشکل ہدف بناتی ہے، سامراج کے لیے ایک بڑے ملک کو مکمل کنٹرول میں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ سامراجی طاقتیں ہمیشہ چھوٹے، کمزور اور اندرونی خلفشار میں مبتلا خطوں کو ترجیح دیتی ہیں، تاکہ وہ انھیں آسانی سے قابو میں رکھ سکیں۔ برصغیر کی تقسیم بھی اسی اصول کے تحت کی گئی تھی، تاکہ کمزور ریاستیں زیادہ آسانی سے کنٹرول کی جا سکیں۔ آج بھی سامراجی قوتیں اسی پالیسی کو بروئے کار لا رہی ہیں تاکہ پاکستان کو مزید تقسیم کیا جائے اور صرف مخصوص وسائل سے مالا مال اور اسٹریٹجک طور پر اہم خطے ان کے کنٹرول میں رہیں۔

    کثیرالعددی طبقے کو بہ طور غاصب قوت پیش کرنا:

    متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے یہ بیانیہ قائم کیا گیا کہ ہندو تمام ملکی وسائل پر قابض ہیں اور وہ ایک غاصب قوت کے طور پر مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی یہ بیانیہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پنجابی تمام وسائل پر قابض ہیں اور چھوٹی قومیتوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو نہ متحدہ ہندوستان میں ہندو ایک منظم قومیت کے طور پر موجود تھے اور نہ آج کے پنجابی کسی مشترکہ قومی شناخت رکھتے ہیں۔ ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم ہمیشہ سے ان کی قومی یکجہتی پر حاوی رہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں پنجابیوں کی ذاتی تقسیمات ان کی مشترکہ قومیت پر غالب ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ جیسے مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت سے شکایات تھیں، آج پاکستان میں چھوٹی قومیتوں کو پنجابی اکثریت سے وہی شکایات ہیں۔

    حقیقی دشمن سے نا آشنا رکھنا:

    متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سامنے ہندوؤں کو دشمن بنا کر پیش کیا گیا، جب کہ حقیقی دشمن انگریز سامراج تھا، جو پس پردہ اپنی سیاست کو کامیاب بناتا رہا۔ یہی پالیسی آج پاکستان میں بھی دہرائی جا رہی ہے، جہاں پنجابیوں کو دشمن بنا کر اصل سامراجی قوت، یعنی امریکہ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سامراجی پالیسی کامیاب ہورہی ہے اور مقامی قوتیں آپس میں اُلجھ کر اصل دشمن کو پہچاننے سے قاصر رہ جاتی ہیں۔

    مستقبل کے بارے مبہم لائحہ عمل اور قیادت کا فقدان:

    متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو علاحدگی کے بعد ایک نیا ملک تو مل گیا، مگر ان کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا۔ نہ ہی ان کے پاس ایسی قیادت تھی جو ان کی مکمل خودمختاری کو محفوظ رکھ سکے۔ یہی مسئلہ آج پاکستان کی ناراض قومیتوں کے ساتھ بھی پیش ہے۔ علاحدگی کا نعرہ تو موجود ہے، مگر علاحدگی کے بعد کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے جو ایک مستحکم اور خودمختار ریاست کی ضمانت دے سکے۔

    سامراج اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کو نہ سمجھنے کے نتائج

    متحدہ ہندوستان میں سامراج اور مقامی اشرافیہ کا اتحاد عام عوام کی نظروں سے اوجھل رہا۔ یہی وَجہ ہے کہ مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد ایک نئی غلامی کی شکل میں سامنے آئی۔ آج بھی چھوٹی قومیتوں کے عوام اپنی مقامی اشرافیہ اور بین الاقوامی سامراجی قوتوں کے درمیان رشتے کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس استحصالی نظام میں صرف پنجابی اشرافیہ ہی نہیں، بلکہ ہر قومیت کی اشرافیہ برابر کی شریک ہے۔

    کیا نظام کے پیدا کردہ مسائل تقسیم سے حل ہو سکتے ہیں؟

    اگر اس سوال کو دیکھا جائے کہ کیا نظام کے پیدا کردہ مسائل تقسیم سے حل ہو سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب بھی نفی میں ملتا ہے۔ کیوں کہ ہندوستان کی تقسیم نے مسلمانوں کے مسائل حل نہیں کیے، بلکہ انھیں ایک نئی غلامی میں دھکیل دیا۔ ہندوستان کے مسلمان آج انتہا پسند ہندوؤں کے ظلم کا شکار ہیں، جب کہ پاکستان کے مسلمان اپنی اشرافیہ اور امریکی پالیسیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اسی طرح اگر پاکستان مزید تقسیم ہو جائے تو علاحدہ ہونے والی قومیں بھی انھی کا شکار رہیں گی۔

    حاصل کلام:

    کسی بھی ملک کے مسائل کا تعلق اس کی جغرافیائی حدود سے نہیں، بلکہ اس کے اندرونی نظام سے ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب بھی کوئی قوم صرف تقسیم کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو وہ نئے مسائل میں گھِر جاتی ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ 1947ء کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کے مسائل ختم نہیں ہوئے، بلکہ نئی شکل اختیار کر گئے۔

    پاکستان کے موجوہ مسائل کا حقیقی حل اس کی مزید تقسیم میں نہیں، بلکہ ایک جامع اور عادلانہ نظام کے قیام میں ہے۔ یہ نظام محض کاغذی دستور نہیں بلکہ ایک زندہ اور عملی ڈھانچہ ہونا چاہیے جو عملی طور پر تمام شہریوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنائے۔ 

    لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تقسیم کی بجائے اتحاد کے ساتھ نظام کی تبدیلی پر توجہ دیں۔ ایک ایسا پاکستان بنائیں جو تمام قومیتوں کا مشترکہ گھر ہو، جہاں ہر شہری کو برابری، عزت اور خوش حالی کا موقع حاصل ہو۔ یہی راستہ ہمیں مقامی اشرافیہ اور بیرونی سامراجی قوتوں کے جال سے نکال سکتا ہے اور حقیقی آزادی اور خودمختاری دلا سکتا ہے۔

     

    Share via Whatsapp