تحریکیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تحریکیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

    وہ تحریک جس کی پشت پر اعلی، جامع اور انسانیت دوست نظریہ موجود نہ ہو، اور منظم اور تربیت یافتہ جماعت نہ ہو، جلد ہی ناکام ہوکر اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔

    By سہیل قریشی Published on Feb 11, 2020 Views 3148
    تحریکیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
    تحریر: سہیل قریشی، مانسہرہ

    بر عظیم پاک و ہند میں ولی اللہی جماعت کے لیڈرز بظاہر خانقاہوں میں بیٹھے ہوتے تھے، لیکن ان کی سیاسی پختگی کا اندازہ ان کے نظریے اور سوچ کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسی ہی شخصیت شاہ عبدالقادر رائے پوری رح بھی تھے، جنہوں نے شاہ الیاس دہلوی رح کو ایک موقع پر فرمایا تھا کہ 
    سامراج تحریکوں کو ختم نہیں کرتا، ان کے رخ موڑ دیتا ہے۔ 
    یہ بات ایک خاص تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمائی تھی، جو بڑے ہی خلوص کے ساتھ شروع کی گئی تھی۔ تحریکوں کا آغاز اکثر خلوص نیت سے ہی ہوتا ہے، لیکن جب آگے چل کر لوگوں کے ملنے سے کارواں بنتا ہے تو کچھ ہمدرد اور خیر خواہ ایسے مل جاتے ہیں، جو تحریک پر قابض ہو جاتے ہیں، اور اس کی سمت کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ تحریک اپنے طے شدہ نظریات اور مقاصد سے ہٹ جاتی ہے، اور کسی گروہ کے مزعومہ مقاصد کی کامیابی کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ جیسے ہی وہ مقاصد پورے ہوتے ہیں، تحریک کا جوش و ولولہ سرد پڑ جاتا ہے اور وہ اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ 
    اس سارے قضیے کی بنیادی وجہ تحریک کے پیچھے اعلی نظریے اور ایک منظم جماعت کا نہ ہونا ہے۔ جب کوئی لیڈر لفاظی کرتے ہوئے اپنے اردگرد لوگوں کا ہجوم اکھٹا کرنے میں کامیاب  ہوجائے، تو تحریک چل پڑتی ہے۔ لیڈر کو ہجوم کو ساتھ ملائے رکھنے کی خاطر ہجوم کے مطلب کی بات کرنی پڑتی ہے، جس سے جذبات برانگیختہ ہوں، زیادہ جوش پیدا ہو، زیادہ ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔ یوں ہجوم آگے آگے ہوتا ہے، اور لیڈر کسی بےبس چرواہے کی طرح ان کے پیچھے پیچھے۔ لیڈر رہنمائی کے اصلی مقام سے گر کر ہجوم کے جذبات کی پیروی کرتا ہے، اور بالآخر ہجوم کے ساتھ ہی ناکام و نامراد ہو کر تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ 
    اعلی نظریے سے مراد جامع اور انسان دوست نظریہ ہے۔ جامع سے مراد ایسا نظریہ جو سماج کی سیاسی، معاشی، سماجی تمام قدروں کو بدلنے کی سکت رکھتا ہو۔میں ٹھیک ہوں الحمد للہ ، محض نعرہ نہ ہو، یا وقتی ایشو پر کوئی ابال نہ ہو۔ صرف مطالبہ حقوق بھی کوئی منظم اور جامع نظریہ نہیں کہلایا جا سکتا۔ نظریے کی جامعیت ہی مکمل سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ نظریے میں وضاحت موجود ہو کہ مستقبل کا سیاسی نظام کونسا ہوگا، معاشی نظام کونسا ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔
    دوسری چیز نظریے کا انسان دوست ہونا ہے۔ یعنی اس میں کل انسانیت کی گنجائش ہو۔ محض کسی خاص خطے اور مخصوص زبان بولنے والوں کے حقوق کا دفاع نہ ہو، بلکہ تمام مظلوموں اور محروم المعیشت لوگوں کو اپنے اندر سمویا ہوا ہو۔ ایسا نظریہ دنیا میں دو ہی طبقوں کا قائل ہو گا، ظالم اور مظلوم۔ اس کے برعکس، بندوں میں ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے حقوق کا نعرہ، یا مخصوص زبان و کلچر کے حقوق کا نعرہ، انسانی حقوق کی عالمگیر جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کا نام ہے۔ مذہبی اور لسانی نظریات پر حقوق کی تحریکوں کو سامراج ہی فروغ دیتا ہے۔ 
    محض نظریہ کافی نہیں، بلکہ نظریے پر تربیت یافتہ جماعت بھی ضروری ہے، جو آگے چل کر تحریک میں پبلک کو کنٹرول کر سکے۔ عوامی رہنمائی کر سکے۔ مستقبل کی سماجی تشکیل کر سکے۔ جماعت کی تربیت اور تیاری کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اور یہ مرحلہ بڑی خاموشی کے ساتھ طے کرنا پڑتا ہے۔ مطلوبہ تیاری کے بغیر تحریک شروع کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ لہذا سامراج دشمن جماعتیں ہمیشہ جماعت سازی اعلی پیمانے پر کرتی ہیں۔ قابل ذکر جماعت پیدا ہونے کے بعد تحریکی دور شروع کیا جاتا ہے۔ 
    جس تحریک کے پیچھے کوئی نظریہ نہ ہو، اور منظم سیاسی طاقت اور جماعت نہ ہو وہ تحریک زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ جذباتی نوجوان ایسی تحریک سے متاثر ہوتے ہیں، اور استعمال ہوجاتے ہیں۔ سنجیدہ نوجوان کو مسائل کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔ جزوقتی تحریکوں کا ایندھن بن کر اپنے آپ کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ 
    آج کا دور نیشن سٹیٹس کا دور ہے۔ یہ قومی جمہوری دور ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد کی تقسیم کے تحت مختلف ممالک وجود میں آچکے ہیں۔ آج قومی بنیادوں پر ہی انقلاب اور تبدیلی اور حقوق کی جدوجہد ہوگی۔ خطوں کو مزید تقسیم کرنا سامراجی چال ہے۔ 
    آج کے دور میں وہ تحریکیں، جنہیں سی این این، وائس آف امریکہ اور دیگر سامراجی میڈیا اور حکومتوں کی امداد حاصل ہو، وہ سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے ہی چلائی جاتی ہیں۔ 
    ایک طرف یہ سامراجی ممالک تیسری دنیا کے مظلوم ممالک کو تخت و تاراج کرتے ہیں، وہاں کی منظم سوسائٹیوں کو توڑتے ہیں ،حکومتوں کو آمریت اور عوامی حقوق کی پامالی کے نام پر تباہ کرتے ہیں، سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے وسائل کو لوٹتے ہیں ۔ مشرق وسطی لاطینی امریکہ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ دوسری طرف سامراج امن پسند ممالک کو بلیک میل کرنے کی خاطر وہاں عوامی حقوق کی تحریکوں کو اغواء کرتا ہے، انہیں امداد اور افرادی قوت پہنچاتا ہے اور میڈیا کی طاقت سے ان کے حق میں پروپیگنڈا کرتا ہے۔ یوں تحریک کا رخ پھیر کر اپنے مقاصد حاصل کرتا اور مخلص نوجوانوں کو استعمال کر کے ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے۔
    Share via Whatsapp