ترقی کا اصل راز ؛ قومی نظام کی تبدیلی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ترقی کا اصل راز ؛ قومی نظام کی تبدیلی

    دنیا کی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ قوموں کا عروج و زوال ان کے نظریات، سیاسی و معاشی نظام اور قومی پالیسیوں سے جڑا ہوتا ہے۔۔۔۔

    By محمد صداقت طلحہ Published on Apr 25, 2025 Views 275

    ترقی کا اصل راز ؛ قومی نظام کی تبدیلی

    تحریر: محمد صداقت طلحہ۔ وہاڑی

     

    دنیا کی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ قوموں کا عروج و زوال ان کے نظریات، سیاسی و معاشی نظام اور قومی پالیسیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ کوئی بھی قوم محض وسائل کی بنیاد پر ترقی نہیں کرتی، بلکہ ایک مستحکم فکری اور عملی ڈھانچہ ہی اس کی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے بڑے انقلابات پر نظر ڈالیں تو ایک چیز واضح ہو جاتی ہے کہ انقلاب صرف سیاسی تبدیلی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک فکری، سماجی اور معاشی تغیر کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جو قومیں صرف چہروں کی تبدیلی میں ہی اپنی نجات سمجھتی رہیں، وہ ہمیشہ زوال پذیر ہوئیں۔ سماجی تبدیلی کی طاقت صرف حکومتوں کے بدلنے میں نہیں، بلکہ جماعتی اور عوامی سطح پر سوچ کے بدلنے میں ہوتی ہے، اور یہی وہ عنصر ہے جو ترقی یافتہ قوموں کو پسماندہ قوموں سے ممتاز کرتا ہے۔ آج اگر ہم چین، ایران، اور روس کی ترقی کا جائزہ لیں یا پاکستان کی پس ماندگی کا تجزیہ کریں تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قوموں کے مقدر ان کے نظاموں سے بنتے اور بگڑتے ہیں۔

    اگر ہم دنیا میں برپا ہونے والے بڑی سماجی تبدیلیوں پر نظر ڈالیں تو ایک چیز واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تبدیلیاں ہمیشہ نظریات کی بنیاد پر آئی ہیں، محض طاقت کے بل بوتے پر نہیں۔ 1789ء میں فرانسیسی انقلاب آیا، جس نے بادشاہت کے استحصالی نظام کو اکھاڑ پھینکا۔ مگر یہ انقلاب صرف حکمران تبدیل کرنے تک محدود نہ رہا، بلکہ اس نے پورے یورپ میں مساوات، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصول متعارف کرائے۔ اسی طرح 1917ء میں روسی انقلاب محض زار شاہی کے خلاف بغاوت نہیں تھا، بلکہ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف ایک نظریاتی جنگ تھی، جس نے دنیا میں کمیونزم کو متعارف کروایا۔ 1949ء میں چین میں کمیونسٹ انقلاب آیا، جس نے ایک منتشر قوم کو یکجا کر کے اسے چند دہائیوں میں عالمی طاقت بنا دیا۔ 

    اگر انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کا ذکر کیا جائے تو وہ 1400 سال قبل جزیرہ نما عرب میں برپا ہوا۔ یہ انقلاب کسی بادشاہ کو ہٹانے یا کسی مخصوص نظام کو توڑنے تک محدود نہ تھا، بلکہ اس نے پوری انسانیت کے فکری، اخلاقی، سماجی اور معاشی اصولوں کو ایک نئی جہت دی۔ یہ دینی انقلاب تھا، جس نے عدل، مساوات، معاشی انصاف اور فکری آزادی پر مبنی ایک ایسا نظام متعارف کرایا۔ جس کے اَثرات صدیوں تک قائم رہے۔ رومی اور فارسی سلطنتیں، جو اس وقت کی سب سے بڑی طاقتیں تھیں، اس انقلاب کے سامنے نہ ٹھہر سکیں۔ خلافتِ راشدہؓ کے مختصر مگر تاریخ ساز دور میں ایسا طرزِ حکمرانی نافذ ہوا، جس میں سماجی انصاف کو حقیقی معنوں میں عمل میں لایا گیا۔ دولت کی مساوی تقسیم کو یقینی بنایا گیا اور سماجی ترقی کی بنیاد رکھی گئی۔ محض چند دہائیوں میں دینی نظام نے نہ صرف عرب علاقے، بلکہ افریقا، ایشیا اور یورپ کے بڑے حصے پر اپنی برتری قائم کر لی۔

    آج اگر ہم چین کی ترقی کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ ملک، جو کبھی افیون کی جنگوں اور مغربی استحصال کا شکار تھا، چند دہائیوں میں کیسے عالمی معیشت میں دوسری بڑی طاقت بن گیا؟ اس کا راز اس کے نظریاتی استحکام میں ہے۔ 1949ء میں ماؤ زے تنگ کے انقلاب کے بعد چین نے زراعت، صنعت اور تعلیم میں بنیادی اصلاحات کیں۔ 1980 ءمیں چین کی جی ڈی پی ( GDP)محض 191 بلین ڈالر تھی، جو 2023 میں 17.7 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ترقی کسی جادوئی چھڑی کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم، مستقل اور نظریاتی بنیاد پر استوار پالیسیوں کا ثمر ہے۔ یہی حقیقت ہمیں ایران کے انقلاب میں بھی نظر آتی ہے۔ 1979ء میں اسلامی انقلاب کے ذریعے مغربی سرمایہ دارانہ اثر و رسوخ کو ختم کیا گیا اور معیشت کو خود کفیل بنانے کی جدوجہد شروع کی گئی۔ سخت بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ایران نے ٹیکنالوجی، دفاع اور معیشت میں زبردست ترقی کی۔ 1980ء میں ایران کی GDP محض 90 بلین ڈالر تھی، جو 2023 میں 610 بلین ڈالر تک جا پہنچی۔ ایران نے سرمایہ داری کے بجائے خود انحصاری کے اصول پر معیشت کو استوار کیا، جس کا نتیجہ آج اس کی اقتصادی اور سائنسی خودمختاری کی صورت میں نظر آتا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس نے بھی اپنے نظام کو دوبارہ منظم کیا اور آج ایک بڑی عسکری اور معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔ مغربی طاقتوں کے دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود، روس اپنی معیشت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا، کیوں کہ اس کے پاس ایک واضح حکمت عملی اور ریاستی خودمختاری پر مبنی پالیسی موجود تھی۔

    اس کے برعکس، پاکستان 77 سال بعد بھی ترقی پذیر ہے، سیاسی عدمِ استحکام، اقتصادی بحران اور سماجی انتشار کا شکار ہے۔ اگرچہ پاکستان کی معیشت میں کچھ ترقی ضرور ہوئی ہے، جیسا کہ 1980ء میں پاکستان کا جی ڈی پی 30 بلین ڈالر تھا، جو 2023ء میں 370 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ مگر یہ ترقی پاکستان کی آبادی کے تناسب سے ناکافی ہے۔ فی کس آمدنی کمزور ہے، صنعتی شعبہ جمود کا شکار ہے، اور تعلیم و ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ معاشرتی سطح پر پاکستان کو دہشت گردی، انتہاپسندی اور سماجی ناہمواری جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 126 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور 83,000 جانیں ضائع ہوئیں۔

    مگر مسئلہ صرف اقتصادی یا سیکیورٹی سے جڑا نہیں، بلکہ بنیادی طور پر نظام کی خرابی میں پوشیدہ ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان، جو خود ایک نظریاتی جدوجہد کا نتیجہ تھا، آج کیوں اپنی شناخت کے بحران میں مبتلا ہے؟ اگر ہم اس صورتِ حال کا تجزیہ کریں تو بنیادی مسئلہ یہی نظر آتا ہے کہ ہم نے کبھی بھی ایک واضح اور منصفانہ نظام کو اپنانے کی کوشش نہیں کی۔ ہماری سیاست میں چہرے بدلتے رہے، مگر نظام وہی رہا، جو استحصال اور ناانصافی پر مبنی تھا۔ ملک کبھی مغربی جمہوری ماڈل کی طرف جھکتا ہے، کبھی اسلامی نظام کی بات کرتا ہے، اور کبھی سوشلزم کے نظریات کی طرف مائل ہوتا ہے، مگر کسی ایک راستے پر استقامت نہیں دکھاتا۔ قوم ہمیشہ لیڈروں کے پیچھے دوڑتی رہی، مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ اصل ضرورت ایک مضبوط اور منصفانہ نظام کی ہے، جو کسی فردِ واحد کے آنے یا جانے سے تبدیل نہ ہوتا۔ 

    ہمارے ہاں یہی بڑی خرابی ہے کہ ہم کسی ایک نظام کو مکمل طور پر اپنانے کے بجائے مختلف نظریات کو ملا کر ایک ایسی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں جو نہ تو سرمایہ دارانہ نظام سے مطابقت رکھتی ہے، نہ اسلامی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے، اور نہ ہی کسی اور فکری ماڈل پر پوری اُترتی ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ آج ہماری معیشت سرمایہ دارانہ استحصال کا شکار ہے، مگر ہم اسے اسلامی معیشت کہنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارا سیاسی ڈھانچہ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، اور ہمارا تعلیمی نظام جدیدیت اور روایات کے درمیان الجھا ہوا ہے۔ یہی وہ سب سے بڑی کمزوری ہے جو پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔

    یہ حقیقت ہے کہ ترقی صرف سڑکیں بنانے، بلند عمارتیں کھڑی کرنے، یا قرضے لینے سے حاصل نہیں ہوتی۔ ترقی کا اصل راز ایک مضبوط، منصفانہ اور خود انحصاری پر مبنی نظام میں ہے۔ اگر ہم چین، ایران، یا مغربی دنیا کی ترقی کو دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہر کامیاب قوم نے کسی نہ کسی مضبوط فکری اور عملی بنیاد پر اپنے نظام کو قائم رکھا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک واضح اور مستحکم نظام پر کاربند ہو۔ یہ نظام کوئی نیا ماڈل نہیں، بلکہ وہی اصول ہو سکتے ہیں جو اسلامی تاریخ میں کامیاب ثابت ہوئے، یعنی عدل، مساوات اور معاشی انصاف پر مبنی حکمرانی۔ اسلامی معیشت میں دولت کا ارتکاز نہیں ہوتا، بلکہ زکوٰۃ، صدقات اور دیگر معاشی اصولوں کے ذریعے دولت کی مساوی تقسیم کی جاتی ہے۔ اسلامی حکمرانی میں عدل و انصاف کو اولین ترجیح دی جاتی ہے، جس سے کرپشن، اقربا پروری اور ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔ اگر پاکستان واقعی ایک اسلامی فلاحی ریاست بننا چاہتا ہے تو اسے ان اصولوں کو عملی طور پر اپنانا ہوگا، محض نعروں تک محدود نہیں رہنا ہوگا۔

    یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ہوگا، کیوں کہ مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔ دنیا ترقی کر رہی ہے، معیشت کے پیمانے بدل رہے ہیں، طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان کو دنیا میں ایک مضبوط اور خودمختار ملک بننا ہے تو اسے چہروں کی سیاست سے نکل کر نظام کی سیاست کی طرف آنا ہوگا۔ ہمیں صرف انتخابات، بیانات، یا وقتی اصلاحات پر انحصار نہیں کرنا، بلکہ ایک ایسا قومی نظام بنانا ہوگا جو انصاف، مساوات اور خودانحصاری پر مبنی ہو۔ نظام کی تبدیلی اور مؤثر پالیسیوں کا نفاذ کسی بھی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قوموں کی تقدیر ان کے فیصلوں سے بنتی ہےاور اگر ہم نے آج فیصلہ نہ کیا تو شاید کل ہمارے پاس وقت نہ بچے۔ سوچنا ہوگا اور اَب سوچے بغیر گزارہ بھی نہیں!

     

    Share via Whatsapp