پاکستان میں طلبہ یونین کی بحالی؛ متوقع فائدے اور خدشات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان میں طلبہ یونین کی بحالی؛ متوقع فائدے اور خدشات

    طلبہ یونین کا مثبت کردار ناگزیر ہے لیکن موجودہ بحالی کی تحریک کے محرکات نیا معاشرتی بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں

    By Rao abdul hameed Published on Dec 12, 2019 Views 4255
    پاکستان میں طلبہ یونین کی بحالی؛ متوقع فائدے اور خدشات  
    تحریر: راؤعبدالحمید، لاہور

    صحت مند معاشرے اپنی قومی فلاح کے لیےنوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں زندگی کے حقائق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں. تاکہ جب یہ طلبہ کالج و یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کر کے فارغ ہوں تو اپنے معاشرے کے لیے بہترین کردار ادا کرسکیں۔نصابی تعلیم طالب علم کے متعلقہ شعبے سے تعلق رکھتی ہے اور ہم نصابی سرگرمیوں سے معاشرے کے مجموعی تقاضوں کو پورا کیا جاتا ہے۔ان سرگرمیوں میں صحت کے حوالے سے کھیلوں کا فروغ، علمی فروغ کے لیے ادبی و علمی مباحث کا انعقاد اور سماجی تشکیل کے لیےتعلیمی ادارے کی حدود تک عملی سیاست کی مشق شامل ہے. طلبہ کو ادارے کے قوانین و ضوابط کا پابند بنا کر ایک یونین کے ذریعے طلبہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان پل کا کردار ادا کروایاجاتا ہےجس میں طلبہ کی فکری، شعوری اور عملی تربیت  بنیادی ہدف میں شامل ہوتی ہے.
    امریکہ اور برطانیہ میں جو یونین کا ماڈل لاگو ہے اس کا خاکہ قابل تقلید ہے۔ہر یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین موجود ہے۔سٹوڈنٹس مل کر یونیورسٹی کی زیر نگرانی ایک گورنمنٹ /سینیٹ /یونین بناتے ہیں. جس کا اپنا آئین ہوتا ہے۔ باقاعدہ الیکشنز کے ذریعے سے یونین کے نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ہر الیکشن سے پہلے الیکشن امیدوار اپنا منشور واضح کرتے ہیں۔پھر ان کا چناؤ ہوتا ہے۔ادارے میں داخل ہونے والا ہرطالب علم بطور ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد یونین یا گورنمنٹ کے باقاعدہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں اور اپنے منشور کے مطابق معاملات کو سلجھاتے ہیں۔ یونیورسٹی، طلبہ سے متعلق ہر ضروری قدم سے پہلے مشاورت کرتی ہے اور طلبہ کی رائے کو اہمیت دیتی ہے۔ اس گورنمنٹ /سینیٹ/یونین کا مالی بجٹ یونیورسٹی کی طرف سے مخصوص ہوتا ہے۔ جو عموماً طلبہ سے فیس کے ساتھ وصول کر لیا جاتا ہے۔جس کو یہ یونین اپنے آئین کے مطابق خرچ کرنے کی پابند ہوتی ہے۔اپنے اخراجات کے ساتھ ساتھ ذیلی تنظیموں کو بھی کنٹرول کرتی ہے، جن میں مختلف قسم کی سوسائیٹیز شامل ہوتی ہیں، جو مختلف سرگرمیاں کر رہے ہوتے ہیں، شعبہ سے متعلق سیمینارز، کلچرل فیسٹیول، علمی اور ادبی مباحث وغیرہ منعقد کئےجاتے ہیں. ان کے بجٹ اور ان کے مختلف امور بھی وہی گورنمنٹ منظور کرتی ہے۔طلبہ کی سب سرگرمیاں کنٹرول اور نظم میں ہوتی ہیں۔اس سارے عمل سے طلبہ عملی میدان میں اترنے سے پہلے ایک عملی مشق کر لیتے ہیں، اجتماعیت کے مزاج، تقاضے اور اس کے حل کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ان میں اجتماعی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور  عملی زندگی کے معاملات کی مشق بھی ہوجاتی ہے جو کہ سماجی و معاشرتی تشکیل کے لیے بے حد مفید ہے. 
    سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سارے سیاسی عمل میں ان ممالک کے قومی سیاستدانوں یا جماعتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا.  بطور مہمان ان کے اپنے اور غیر ملکی سیاسی اکابرین کے ساتھ مباحث ہوتے رہتے ہیں، جن سے طلبہ میں سوال کرنے اور قومی و بین الاقوامی معاملات کو سمجھنے کی استطاعت پیدا ہوتی ہے.
    ماضی میں اس ملک میں  عملی طور پر ضیاء الحق کے زمانے تک طلبہ یونینز پاکستان میں موجود تھیں۔ یہاں کی اکثر سیاسی و سماجی قیادت انہی یونینز سے نکلتی تھی، جو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔بعدازاں  بدقسمتی سے ہر سیاسی جماعت نے تعلیمی اداروں میں اپنے ونگز بنانے شروع کر دیے۔ جس نےبعد میں طلبہ اور قومی مفید سرگرمیوں کو پر تشدد بنا دیا۔ ان جماعتوں نے یونینز کے ذریعے سے تعلیمی اداروں میں اپنی من مانی کے مورچے بنا لیے۔ جس سے اداروں میں تعلیم کے حصول میں مشکلات پیدا ہونے لگیں۔ علاقائی، لسانی، مذہبی، سیاسی جماعتوں کے دھڑے پروان چڑھے اور اداروں کا تعلیمی معیار گرتا گیا۔
    جس کے نتیجے میں آج بھی ان تنظیموں کی کچھ باقیات سرکاری اداروں میں اپنے گھناؤنے کردارکے ساتھ موجود ہیں۔
    کم و بیش بیس سال کے بعد تعلیمی اداروں کے حالات تعلیمی ضروریات کے موافق ہوئے ہیں۔ طلبہ اپنی ڈگریاں وقت پر مکمل کرنے لگے ہیں۔ امتحانات وقت پر ہوتے اور نتائج کا اعلان بھی مقررہ وقت پر کر دیاجاتا ہے۔جو کبھی کسی خواب سے کم نہیں تھا۔
    ابھی پھر سے سوشل میڈیا کے ذریعے سے طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک پروان چڑھ رہی ہے۔ جن میں لال رنگ نمایاں ہے... لال رنگ سوشلزم کا نمائندہ رنگ ہے جو خون و آگ کی نمائندگی کرتا ہے. سوشلزم ردعمل میں آیا ہوا انقلاب ہے۔ جو جاگیر داروں، اورسرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھا۔ جب مزدوروں اور کسانوں کے حقوق مسلسل سلب کیے جارہے تھے، تب ردعمل کے طور پر سوشلزم تحریک پروان چڑھی تھی۔ اسی لیے مزدور اور کسان تنظیمیں ہمیشہ بائیں بازو کی تحریکات کی شہرت حاصل کرتی ہیں یعنی غریبوں اور کمزور طبقات کی نمائندہ اجتماعیت ۔ سوشلسٹ تحریک کے مقابل سرمایہ داروں نے ہمیشہ مذہبی حوالے سے منافقت سے کام لیااورمذہب کو اپنے مفادات کے لیےاستعمال کیا اس لیے سوشلسٹوں میں مذہب کے انکار نے فروغ پالیا۔
    طلبہ کی موجودہ  تحریک میں شامل نمائندہ لوگوں پر نظر ڈالی جائے تو ان میں اکثریت امیر، لبرل، ملحدین اور فوج مخالف نظریات کے حاملین کی ہے۔ان کو پروان چڑھانے میں سامراجی اشاعتی ادارے(خصوصاً بی بی سی اور وائس آف امریکہ) سرگرم کردار ادا کررہے ہیں.
    طلبہ یونین کی بحالی ایک مفید عمل ہو سکتا ہے بشرطیکہ ان مقاصد کو پیش نظر رکھا جائے جواوپر بیان ھوےہیں۔اگر اس فورم کے ذریعیےپھر سے تشدد کی راہ ہموار کرنے، اپنے سیاسی مقاصد کےلیے دھڑے بنا کر اداروں پر اپنا سیاسی رسوخ بڑھانا مقصود ہے تو اس کی مخالفت ہر باشعور انسان پر فرض ہے۔
    ہمارا قومی المیہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہاں کا سیاست دان وقتی سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر اپنے قومی مفاد کو بیچتا آیا ہے.
     جس کی بدولت جمہوریت ہمیشہ کمزور رہی، فوج کی مداخلت کا جواز بنتا رہا، سامراجی ہتھکنڈے کارگر رہےاور معاشی اعشاریے کبھی مضبوط نہیں ہوئے۔اسی طرح ماضی میں طلبہ یونین کی تباہی بھی انہی سیاست دانوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اور اب بحالی کے ذریعے تعلیم کی تباہی بھی انہی کی ہاتھوں متوقع ہے۔اس لئے ہمارے قومی نوجوانوں کو کسی بھی جوشیلے اور جذباتی خوش نما نعروں سے متاثر ہونے کے بجائے سنجیدہ طور پر باشعور ہوکر مروجہ سیاست دانوں کے سیاسی ہتھکنڈوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیئے۔
    Share via Whatsapp