قبائلی پٹھانوں کا ماضی، حال اور مستقبل
فاٹا کے قبائلی علاقوں کے باشندگان کو صوبوں میں انضمام کے مرحلہ کو حکمت سے برداشت کرنا چاہیے اور دنیا کے بین الاقوامی چالبازوں سے محتاط رہنا چاہیے
قبائلی پٹھانوں کا ماضی، حال اور مستقبل
تحریر : راؤ عبدالحمید ۔ لاہور
پختون، افغان یا پٹھان کے الفاظ ذہن میں آتے ہی غیرت، بہادری اور استقامت بھی ساتھ آجاتے ہیں. یہ جس جگہ آباد ہیں، وہ صدیوں تک برصغیر کا دروازہ بنا رہا. جس نے یہ دروازہ پار کر لیا اس کو برصغیر پر قبضے سے کوئی نہ روک سکا، انیسویں صدی میں برصغیر پر حملہ کرنے والی بدیشی کمپنی نے راستہ بدل کر برصغیر پر قبضہ کیا اور مشرق وسطیٰ کی جانب بڑھنا چاہا تو یہ دروازہ ان کے لیے بند تھا، کمپنی بہادر ہزار ہا کوشش کے باوجود اس دروازہ کو پار نہ کر سکی اور اس خطے کے جزوی علاقوں پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے 1883 میں خود ہی اپنی سرحد (ڈیورنڈ لائن) کا تعین کیا. ڈر برابر لگا رہا اگر پختون یا کوئی اور اس دروازے کو پار کر آیا تو برصغیر پر قبضہ برقرار نہیں رکھا جا سکے گا. انہیں اس دروازے کی دہلیز پر کانٹے بچھانے پڑے.
پہلے خود ہی لائن لگائی، پھر اس لائن کے سرحدی علاقے کو باقی صوبے سے کاٹ کر سرحدی علاقہ بنا دیا،اور اس سے بھی آگے ایک باڑ لگائی اور اس کا نام فاٹا رکھا، یہاں آباد قبائل کو باقی صوبے اور ملک سے کاٹ کر اس کے انتظامی امور مرکز سے چلائے، ان قبائلی علاقوں کو علاقہ غیر کہا اور سمجھا گیا. پورے برصغیر میں قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کا نفاذ ہوا لیکن ادھر 1901 میں کئی مراحل سے گزار کر FCR Frontier Crimes Regulations ) نامی کالا قانون نافذ کر دیا گیا . جس نے یہاں انسانوں کو برصغیر کی غلام قوم سے بھی پیچھے دھکیل دیا. باقی برصغیر میں کم از کم کاغذوں میں تو انسان کو انسان سمجھا جاتاتھا لیکن یہاں کاغذ پر بھی انہیں انسانی حقوق حاصل نہیں تھے اور پولیٹیکل ایجنٹ نام کے خدائی اختیار والے عہدے سے معاملات کو چلایا جاتا رہا. 1901 والے FCRقانون کے مطابق کسی بھی قبائلی پختون کو بغیر جرم کے اٹھایا جاسکتا تھا، پورے قبیلے اور خاندان کو بھی، اگر ضرورت پڑے توپورے قبیلے کا سردار خود بغیر وجہ کے کسی بھی فرد کو حکومت کو کے حوالے کرنے کا پابند تھا،کسی بھی حکومتی فیصلے پر نہ اپیل کی جاسکتی تھی، نہ کوئی دلیل سنی جاتی اور نہ ہی کسی وکیل کی مدد کارگر ثابت ہوتی تھی. 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد بھی یہ قانون جوں کا توں قائم رہا، بالکل ویسی ہی شکل میں جیسے انگریز نے بنایا تھا. یہ قانون ایک سو سترہ سال بعد مئی 2018 میں پاکستان کے آئین میں ترمیم کے نتیجے میں ختم کیا گیا. ان ایک سو سترہ سالوں میں ان علاقوں کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا. خصوصاً 1980 کی دہائی میں ہونے والے افغان جہاد کے لیے اس علاقے کو بیس کیمپ بنایا گیا.
پوری دنیا سے کرائے کے جہادی یہاں بسائے گئے اور یہاں کے باشندگان کو بھی اس جہاد میں شامل کیا گیا. پاکستانی سیاست دانوں کی اجازت سے پاک فوج نے امریکی مفادات کے لئے جہادی بنائے، ان سے افغانستان میں جنگ کروائی. جس میں ان جہادیوں نے روس کا تو اتنا نقصان نہیں کیا جتنا افغان کا کیا اور آخر کار امریکی ایماء پر افغانستان پر قبضہ کرکے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے. خصوصاً ان قبائلی علاقوں پر بھی اپنی اجارہ داری قائم کر لی اور FCRجیسے کالے قانون سے بھی بھیانک نام نہاد شرعی نظام نافذ کر دیا، نتیجتاً مقامی افراد کو ہجرت کرنا پڑی یا وہاں رہتے ہوئے طالبان کے سامنے اپنی تذلیل برداشت کرنا پڑی.
وقت نے پلٹا کھایا، امریکہ کے مفادات تبدیل ہوئے ان جہادیوں کی ضرورت ختم ہوئی تو یہ سب لوگ دہشت گرد کہلائے جانے لگے اور ان جہادیوں کی دہشت نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. پاک فوج کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس نے بھی قومی مفاد میں اپنا بیانیہ تبدیل کیا اور وہاں سے اپنے اپنے علاقوں کو ان فسادیوں سے واگزار کرنا شروع کر دیا. دو تین دہائیوں کے بعد یہ اتنا آسان نہیں تھا، اور کوئی متبادل حل بھی موجود نہ تھا. راہ حق، صراط مستقیم، شیردل، راہ راست، راہ نجات، ضرب عضب، ردلفساد جیسے ناموں سے آپریشن کر کے ان علاقوں سے فسادی گروہوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی گئی.
جس سے یقیناً فائدہ ہوا اور بہت تھوڑے سے علاقوں کے علاوہ فوج ریاستی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی. فروری 2018 میں پاک آرمی کے چیف نے جرمنی کے شہر میونخ میں عالمی سطح پر اپنے ماضی کے غلط بیانیے کو تسلیم کیا اور آنے والے مستقبل کی وضاحت کی. جس میں انتہا پسندی کا خاتمہ اور قبائلی علاقوں کو باقی پاکستان جیسے حقوق دینے کی طرف قدم بڑھایا، ہر گزرتے دن کے ساتھ قبائلی علاقوں سے انتہا پسند گروہوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور افغانستان کی سرحد سے دراندازی روکنے کے لیے باڑ لگانے کا کام بھی شروع کر دیا ہے.
ان سب فوجی اقدامات کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل کا آغاز بھی کر دیا. ان علاقوں کو پاکستانی صوبوں میں ضم کروا دیا. جیسے ہی یہ علاقے صوبوں میں ضم ہوں گے، ان علاقوں میں باقی شہروں جیسے تمام متعلقہ ادارے بنیں گے. جیسےعدالتی نظام، تعلیم کے لیے سکول، کالج، یونیورسٹیاں، لائبریریاں. صحت کے لیے ہسپتالوں کا نظام، امن و امان کے لئے سکیورٹی کے ادارے جو وہاں نہ ہونے کے برابر ہیں. بنیادی انفراسٹرکچر پل، سڑکیں اور مواصلاتی نظام. سیاسی مفاہمت کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں سیاسی نمائندگی میں بھی اضافہ کر دیا ہے.
اس سارے عمل کی سب سے زیادہ مخالفت ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے کی جنہوں نے ان علاقوں کو جنگ میں دھکیلا اور علماء کرام نے اپنے فتاویٰ کے ذریعے کرائے کے جہاد کا راستہ ہموار کیا. ان قبائلی علاقوں میں بہتری کے لئے جس ادارے نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور مسلسل کر رہا ہے وہ پاکستان آرمی ہے. آرمی مکمل کامیابی کے بہت قریب ہے. ماضی کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن موجودہ دور میں قومی بیانیہ پر شاید صرف فوج ہی قائم نظر آتی ہے. عین اس وقت جب سب ٹھیک ہونے کے قریب ہے، کراچی میں ایک پختون کے ماورائے عدالت قتل کے ردعمل میں ایک تحریک جنم لیتی ہے. جو اپنے آپ کو پختون تحفظ مومنٹ کہتی ہے. ان کے مطالبات میں انسانی عزت، آپریشن کے لیے بچھائی جانے والی مائینز کا خاتمہ، ماورائے عدالت سکیورٹی فورسز کا لوگوں کو اٹھانا اور بالخصوص چیک پوسٹس کا خاتمہ سر فہرست ہیں. یہ سب مطالبات بالکل جائز ہیں. حکومت اور فوج کے لیے ان مطالبات کو پورا کرنا ضروری بھی ہے. لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان علاقوں کو اس حد تک لانے میں کم وبیش دو دہائیاں لگ چکی ہیں اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے آنے والے سالوں میں ریاستی ادارے وہاں قائم ہوں گے اور باقی ملک کی طرح وہ سب سہولیات ان کو میسر ہوں گی
لیکن پختون کے نام پر بننے والی تحریک جس کا دائرہ محض چند علاقوں تک محدود ہے اور بہت تھوڑے لوگ ان سے منسلک ہیں ( صرف محسود اور وزیر قبائل) ، پشاور وادی کے اضلاع نوشہرہ، صوابی، مردان، چارسدہ اور پشاور کے پختون اس تحریک سے لاتعلق ہیں. بیرونی ممالک کی میڈیا کوریج کی بدولت اپنے مطالبات کو پورا کروانے کے لیے عجلت دکھا رہے ہیں. خصوصاً اس ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی محنت اور تگ ودو سے پورے خطے میں امن قائم ہونے جا رہا ہے، ان کے بنیادی حقوق ملنے والے ہیں. کم وبیش ڈیڑھ سو سالوں سے تاریکی میں رہنے والوں اور ظلم، جبر اور جنگ برداشت کرنے والوں کی امیدوں کی بر آوری کا وقت آن پہنچا ہے تو اب چند مہینے یا سال بھی برداشت نہیں ہو رہے
اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو جلد بازی ایک اور بحران کا شاخسانہ ثابت ہو سکتی ہے، جیسے چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ، شہری علاقوں میں چیک پوسٹیں نہیں ہونی چاہیے، یہ درست معلوم ہوتا ہے لیکن آپ جس خطے سے ان کا خاتمہ چاہتے ہیں وہاں فوج کے علاوہ کوئی منظم ادارہ موجود ہی نہیں. امن و امان قائم کرنے والے باقی ادارے ابھی بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں، چند مہینوں میں یہ ادارے وہاں موجود ہوں گے اور جیسے ہی منظم ہوکر کام کرنے کے قابل ہوں فوراً سے فوج سے یہ ذمہ داری واپس لی جائے. فوج کو صرف سرحد کی کی حفاظت پر بھیجا جائے. لیکن عجلت اس تبدیلی کے عمل کو نقصان پہنچائے گی اور امن و امان کے نا ختم ہونے والے مسئلے کو جنم دے گی. جو لوگ عقل و شعور اور سیاسی بصیرت رکھتے ہیں وہ یقیناً اس عجلت کی مخالفت کریں گے. اگر ہم اس تحریک کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس تحریک کا نصب العین آج کے دور کے قومی جمہوری تقاضوں کے متضاد ایک محدود علاقے اور نسل کے لئے ہے. جس "پختون" کے تحفظ کی بات کرتی ہے، اس کی اکثریت سیاسی بصیرت کی بنیاد پر ان کے نظریات اور لائحہ عمل کی قائل ہی نہیں. اس کے روح رواں آئین اور قانون کے الفاظ تو استعمال کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کے قائل نظر نہیں آتے. اپنے مطالبات کے لیے کسی خاص ادارے کو ہدف بنانا شکوک شبہات میں مبتلا کرتا ہے.اس تحریک کی پالیسی کو نظر انداز کرکے عملی سیاست میں حصہ لے کر قومی اسمبلی آنے والے ممبران بھی ریاستی آئین اور اپنی تنظیمی پالیسی کے مخالف تشدد کا راستہ اختیار کر رہے ہیں. یقیناً اس راستے پر چلنے سے تحریک کو دبانا آسان ہوگا. انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی مداخلت کا جواز بنے گا اور مصیبت زدہ علاقوں کی پریشانیاں حل کرنے میں پیچیدگیاں پیدا ہوں گی. ان قومی اسمبلی کے ممبران کا روایتی سیاست دانوں خاص طور پر جن پر 1971 میں ملک توڑنے کی سازش کا الزام ہے، ان کے گھر جا کر کھانا کھانا مفاد پرستی کو سوا کچھ نظر نہیں آتا. عام لوگوں کا تاثر بھی یہی ہے کہ جس پولیس افسر کے ہاتھوں کراچی میں پختون بھائی کا قتل ہوا، جس کے رد عمل میں یہ تحریک پیدا ہوئی، وہ اسی میزبان کا دست راست رہا ہے.
اگر ان لوگوں کا جائزہ لیں جو اس تحریک کو پوری دنیا میں پھیلانے کا کام کر رہے ہیں ، ان میں مذہب سے انکاری ملحدین، فوج مخالف نام نہاد لبرل اور بے پردہ گلالئی شامل ہیں. جلوسوں میں مطالبات پر دھیان کم اور قومی ادارے کے خلاف جذبات ابھارنے پر زور زیادہ دیا جاتا ہے.
اگر ہم اس سارے تجزیے کا نتیجہ نکالیں تو یہ ماننا پڑے گا ان قبائلی علاقوں میں ظلم ہوا ہے بلکہ بہت زیادہ ہوا ہے، جنگ میں چلنے والی گولی بے گناہ اور دہشت گرد کا فرق نہیں جانتی. جنگ والے علاقوں میں وہ سب نہیں ہوسکتا جو کسی بھی پرامن علاقے میں توقع کی جاسکتی ہے. لیکن جب کم و بیش ڈیڑھ صدی بعد اپنے آپ کو باقی ملک کے لوگوں کے مساوی شہری بننے کے قریب ہوں اور کوئی آپ کو اس سے دور کرنے کا پروگرام بنائے تو یقیناً اس ایجنڈا کی مخالفت ضرور کرنی چاہیے. اس تحریک والے اپنا جائز مطالبہ غلط وقت پر کر رہے ہیں. اس تحریک کے لوگوں کو جلد یا بدیر یہ ماننے پڑے گا، اب پھل کھانے کا وقت ہے. سماج کی بہتری کے لئے چند مہینے یا سال زیادہ اہمیت نہیں رکھتے. لیکن زمینی خدا اپنی چال چلتے رہتے ہیں، ہوشیار تو ہونا پڑے گا۔
یہ شرارت ہے، سیاست ہے، کہ ہے کوئی سازش
شاخ پر پھل آئے اس سے پہلے پتھر آگیا