پاک بھارت تنازع: عالمی اسلحہ فروشوں کی پراکسی جنگ
جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی اب محض ایک علاقائی تنازع نہیں رہی، بلکہ یہ عالمی اسلحہ فروشوں — امریکہ، چین اور فرانس — کے ...

پاک بھارت تنازع: عالمی اسلحہ فروشوں کی پراکسی جنگ
تحریر: محمد اصغر خان سورانی، بنوں
جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی اَب محض ایک علاقائی تنازع نہیں رہی، بلکہ یہ عالمی اسلحہ فروشوں — امریکا، چین اور فرانس — کے درمیان ایک پراکسی جنگ کا میدان بن چکی ہے۔ اس تنازع کی جڑیں صرف سرحدی جھڑپوں یا نظریاتی اختلافات میں نہیں، بلکہ اس کے پیچھے جیو پولیٹیکل مفادات، اسلحہ کی عالمی منڈی پر قبضہ اور تکنیکی بالادستی کی دوڑ کارفرما ہے۔
جنوبی ایشیا میں ایک ایسی جنگ چھڑی ہوئی ہے، جس کے بارے میں عام شہری بہت کم جانتے ہیں۔ یہ جنگ گولیوں سے نہیں، معاہدوں سے لڑی جارہی ہے۔ میدانِ جنگ کے بجائے بورڈ روم میں۔ بڑے دفاعی ادارے جیسے لاک ہیڈ مارٹن (امریکا)، چینگڈو ایوی ایشن (چین) اور ڈاسالٹ ایوی ایشن (فرانس) جنوبی ایشیا میں اَثرورسوخ کے لیے باہم برسرپیکار ہیں۔ درحقیقت، یہ ایک خاموش تجارتی جنگ ہے، جس میں پاکستان اور بھارت محض "اسلحہ کی منڈیاں" بن کر رہ گئے ہیں، جب کہ اصل جنگ عالمی دفاعی صنعت پر کنٹرول کی ہے۔
عالمی دفاعی کمپنیوں کی حکمت عملی
لاک ہیڈ مارٹن: امریکی دفاعی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے بھارت میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے F-21 لڑاکا طیاروں کی پیشکش کی ہے، جو خصوصی طور پر بھارتی فضائیہ کی ضروریات کے مطابق ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ کمپنی نے بھارت میں مقامی تیاری پر زور دیا ہے، جس سے "میک ان انڈیا" پالیسی کو تقویت ملتی ہے۔ یہ صرف ایک طیارہ فروخت کرنے کی بات نہیں، بلکہ دہائیوں تک بھارتی دفاعی سیکٹر میں اپنا اَثرورسوخ قائم کرنے کی حکمت عملی ہے۔
چینگڈو ایوی ایشن: چین کی یہ دفاعی کمپنی پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتی ہے، خاص طور پر JF-17 تھنڈر لڑاکا طیارے کی مشترکہ تیاری کے ذریعے، یہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا ذریعہ بنا ہے، مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ چین کو جنوبی ایشیا میں اپنے اَثرورسوخ کو بڑھانے کا موقع ملا ہے۔ "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کے تحت یہ تعاون محض ایک فوجی معاہدہ نہیں، بلکہ وسیع تر اقتصادی اور سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ڈاسالٹ ایوی ایشن: فرانسیسی کمپنی ڈاسالٹ نے بھارت کو رافیل لڑاکا طیاروں کی فراہمی کے ذریعے اس علاقے میں اپنی موجودگی کو مضبوط کیا ہے۔ یہ معاہدہ صرف طیاروں کی خریداری تک محدود نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی، تربیت اور طویل مدتی تعاون پر مشتمل ہے، جس سے یورپی یونین کو بھی اس خطے میں اپنا اَثرورسوخ بڑھانے کا موقع ملا ہے۔
اسرائیل کی دفاعی کمپنی اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) کے تیار کردہ "ہاروپ" ڈرون، جسے "خودکش ڈرون" بھی کہا جاتا ہے، نے حالیہ دِنوں میں جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن کو متاثر کیا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس ڈرون کا استعمال کیا ہے، جو نہ صرف نگرانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، بلکہ دشمن کے ریڈار سسٹم پر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ ڈرون خود کو نشانے پر دھماکہ خیز مواد کے ساتھ تباہ کر دیتا ہے، جس سے یہ ایک انتہائی خطرناک ہتھیار بن جاتا ہے،لیکن یہاں دلچسپ موڑ آیا جب پاکستان کی عسکری ٹیم نے اس اعلیٰ تکنیکی ڈرون کا مقابلہ کرنے کے لیے "لو ویپن" ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ایک ایسی حکمت عملی جس میں کم خرچے میں زیادہ مقاصد حاصل کرنے پر توجہ دی گئی۔ یہ پاکستان کی طرف سے ایک تکنیکی کامیابی تھی، جس نے بھارت کے مہنگے ہتھیاروں کے مقابلے میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو ثابت کیاہے۔
بھارت ان اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل ڈرون کے استعمال سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید تیز کرسکتا تھا، لیکن متوقع نتائج نہ ملنے کے باعث عالمی ہتھیار مارکیٹ میں اس ٹیکنالوجی کا خاص استقبال نہیں ہوا۔ ورنہ یہ تعاون صرف ایک ڈرون کی فروخت تک محدود نہ رہتا، بلکہ اس سے بڑھ کر دیگر اسلحہ کی منڈیوں تک بھی سرایت کر سکتا تھا۔
یہ مثال واضح کرتی ہے کہ کس طرح جنوبی ایشیااسلحے کے استعمال کی ایک تجربہ گاہ بن گیا ہے، جہاں مختلف ممالک اپنے جدید ہتھیاروں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت: صرف "اسلحہ کی منڈیاں"؟
خطے کے دو بڑے ممالک، پاکستان اور بھارت، جو کہ تاریخی طور پر متحارب رہے ہیں، عالمی دفاعی کمپنیوں کے لیے اہم "مارکیٹ" بن گئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک اپنی سلامتی کے خدشات کے باعث بڑی مقدار میں ہتھیار خریدتے ہیں، لیکن کیا یہ حقیقت میں ان کی ضروریات کے مطابق ہے یا یہ محض عالمی دفاعی کمپنیوں کی منافع کماوٗ مہم کا حصہ ہے؟
اس وقت بھارت دنیا کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا درآمد کنندہ ملک ہے۔ 2019-2023 کے درمیان، بھارت نے تقریباً 45 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدےہیں۔ اس کی "میک ان انڈیا" پالیسی کے باوجود، بھارت ابھی بھی اعلیٰ معیار کے ہتھیاروں کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار کرتا ہے۔جب کہ پاکستان محدود معاشی وسائل کے باوجود، پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔ چین کے ساتھ اس کے تعلقات نے اسے کچھ دفاعی آلات میں خودکفیل بنانے میں بھی مدد کی ہے، لیکن یہ بھی کئی طرح کی دفاعی ضروریات کے لیے بیرونی کمپنیوں پر انحصار کرتا ہے۔
اصل کھلاڑی: سپر پاورز کی حکمت عملی
اس خاموش تجارتی جنگ میں، اصل کھلاڑی وہ سپر پاورز ہیں جو اپنے اَثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے دفاعی کمپنیوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ممالک جیو پولیٹیکل مفادات، اسلحہ کی عالمی منڈی پر قبضہ اور تکنیکی بالادستی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
امریکا لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ اور ریتھیون جیسی کمپنیوں کے ذریعے، نہ صرف اپنی معیشت کو فائدہ پہنچاتا ہے، بلکہ عالمی سیاست میں اپنے اتحادیوں کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ گہرے دفاعی تعلقات چین کے اثر کو روکنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔
چین پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کے ذریعے، نہ صرف اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دے رہا ہے بلکہ "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کے تحت اپنے اقتصادی اور سیاسی مقاصد کو آگے بڑھا رہا ہے۔ خاص طور پر گوادر پورٹ کی ترقی اور CPEC منصوبوں کے ذریعے چین بحر ہند میں اپنی دسترس کو بڑھا رہا ہے۔
روس نے بھارت کو S-400 میزائل دفاعی نظام فراہم کر کے اس خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھا ہے۔ یہ معاہدہ امریکا کی نظر میں تنازع کا باعث بنا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ محض تجارتی نہیں، بلکہ سیاسی بھی ہے۔
معاشرتی اور اخلاقی اَثرات
اس خاموش تجارتی جنگ کے معاشرتی اور اخلاقی پہلو بھی ہیں:
معاشی اَثرات: دفاع پر بڑی رقم خرچ کرنے سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں سے وسائل دور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں غربت، ناخواندگی اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، مگر پھر بھی بڑی رقم ہتھیاروں پر خرچ کرتے ہیں۔
امن کے امکانات پر اَثر: ہتھیاروں کی دوڑ سے خطے میں تناؤ بڑھتا ہے اور امن کے امکانات کمزور ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو عالمی برادری امن کی بات کرتی ہے، دوسری طرف دفاعی کمپنیاں اپنے مفادات کے لیے اس کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں۔
دفاعی خودمختاری کا فقدان: پاکستان اور بھارت دونوں بیرونی دفاعی کمپنیوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں، جس سے ان کی دفاعی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ بین الاقوامی دباؤ یا پابندیوں کی صورت میں، ان ممالک کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
مستقبل کی راہ: پائیدار امن کی طرف
اس خاموش تجارتی جنگ سے نکلنے کے لیے، جنوبی ایشیا کو چند اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
پاکستان اور بھارت کو اپنے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جس سے دفاعی اخراجات میں کمی آ سکتی ہے۔
دونوں ممالک کو اپنی دفاعی صلاحیتوں میں خودکفیل ہونے کی طرف بڑھنا چاہیے، تاکہ بیرونی انحصار کم ہو۔ جس طرح ایران وغیرہ جیسے ممالک کررہے ہیں۔
اس سلسلے میں حکومتوں کو اپنی عوام کو بھی دفاعی معاہدوں کے حوالے سے اعتماد میں لینا چاہیے۔ تاکہ انھیں بھی ان معاہدات کے پس پردہ حقائق اور ان کے سماجی و معاشرتی اثرات سے آگہی ہو۔
خلاصہ
جنوبی ایشیا میں خاموش تجارتی جنگ اصل میں عالمی دفاعی کمپنیوں اور سپر پاورز کے درمیان اَثرورسوخ کی جنگ ہے، جس میں پاکستان اور بھارت محض "اسلحہ کی منڈیاں" بن کر رہ گئے ہیں۔
پاک بھارت تنازع کو عالمی اسلحہ فروشوں کی پراکسی جنگ کہنا غلط نہیں ہوگا، جس کی جڑیں سرحدی تنازعات سے کہیں زیادہ گہری ہیں اور اس میں جیوپولیٹیکل مفادات کی پیچیدہ جدوجہد شامل ہے۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے، خطے کو اپنی حکمت عملی کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا اور عوامی مفاد کو ترجیح دینی ہوگی۔ صرف اسی طرح سے پائیدار امن اور ترقی کی راہ پر چلا جا سکتا ہے اور عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
عوام کو چاہیے کہ وہ ان حالات میں بے جا جذباتی طرز عمل کے اِظہار کے بجائے شعوری انداز سے چیزوں کو دیکھیں۔
حکومتوں کا فرض یہ بھی ہے کہ اپنی قومی خودمختاری اور سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے دفاعی نظام کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ معاشروں کے داخلی مسائل کے حل اورعوام کو سہولیات بہم پہنچانے کی بھی ٹھوس منصوبہ بندی کریں۔
سب سے بڑھ کر دونوں ممالک کو یہ چاہیے کہ دوطرفہ معاملات کو قومی و علاقائی تناظر میں دیکھنے اور حل کرنے کی روش اپنائیں تاکہ یہ خطہ عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے ایک باوقار بقائے باہمی کے فریم ورک کا حصہ بن کر امن، استحکام اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکے۔