ظالمانہ نظام کے تین ہتھیار: جہالت، معاشی بدحالی اور فکری انتشار
ہر دور میں ظالمانہ نظام نے اپنے مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کو کمزور اور بے بس بنانے کی کوشش کی ہے۔ ۔۔۔۔

ظالمانہ نظام کے تین ہتھیار: جہالت، معاشی بدحالی اور فکری انتشار
تحریر : محمد اصغر خان سورانی، بنوں
ہر دور میں ظالمانہ نظام نے اپنے مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کو کمزور اور بے بس بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایسے ہتھیار استعمال کرتا ہے جو نہ صرف قوم کی ترقی کو روکتے ہیں، بلکہ انھیں ان کے بنیادی حقوق سے بھی ناآشنا رکھتے ہیں۔ ان اہم ہتھیاروں میں قوم کو جہالت کے اندھیرے میں رکھنا، معاشی طور پر کمزور کرنا اور فکری انتشار پیدا کرنا شامل ہیں۔ یہ تینوں حربے مل کر عوام کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں، جہاں سے نکلنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔
اس مضمون میں ہم ان تینوں ہتھیاروں کا جائزہ لیں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح قوم کے نوجوان ان ہتھکنڈوں سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔
1۔ قوم کو جاہل رکھنا
ظالمانہ نظام کی پہلی اور اہم ترین کوشش یہ ہوتی ہے کہ قوم کو تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ تعلیم وہ طاقت ہے جو انسان کو اپنے حقوق کا شعور دیتی ہے اور اسے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت بخشتی ہے۔ جب قوم تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو وہ نہ صرف اپنے حقوق کا دفاع کرتی ہے، بلکہ ظالمانہ نظام کے خلاف متحد ہوکر کھڑی ہوجاتی ہے۔لیکن جب قوم جاہل ہوتی ہے تو وہ اپنے اوپر استحصال کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے اور ظالم کے ہاتھوں کھلونا بن جاتی ہے۔
تعلیمی نظام اور اداروں کی کمزوری
ظالمانہ نظام اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں کو کمزور کرتا ہے، معیارِ تعلیم کو گرانے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا نصاب متعارف کرواتا ہے جو عوام کو حقیقی علم سے دور رکھے۔ اس کا بنیادی مقصد قوم کے ذہنوں کو محدود رکھنا اور انھیں اپنے حالات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی صلاحیت سے محروم کرنا ہوتا ہے۔ ایسے نظام میں ظاہری طور پر تعلیم یافتہ نظر آنے والا طبقہ بھی شعور کی کمی کا شکار ہوتا ہے۔ یہ لوگ عموماً سطحی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔
2۔ اقتصادی بدحالی پیدا کرنا
ظالمانہ نظام کا دوسرا اہم ہتھیار عوام کو اقتصادی لحاظ سے کمزور کرنا ہے۔ وہ عوام کو معاشی طور پر پس ماندہ رکھنے کے لیے ناانصافی پر مبنی معاشی پالیسیاں متعارف کرواتا ہے اور قومی وسائل کو چند طاقت ور ہاتھوں میں مرتکز کرتا ہے، جس کے نتیجے میں عام آدمی کو محرومی اور غربت کی دلدل میں دھکیلتا ہے۔ یہ نظام عوام کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر انھیں اپنا مستقل غلام بنا لیتا ہے۔
معاشی بدحالی کا نقصان
جب لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہوتے ہیں تو ان کے پاس نہ تو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی وسائل۔ وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ بڑے سماجی و معاشرتی مسائل پر سوچنے کی صلاحیت ہی کھو دیتے ہیں۔ یہ معاشی بدحالی نہ صرف ان کی جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے، بلکہ ان کی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کو بھی کمزور کر دیتی ہے۔
3۔ فکری انتشار پیدا کرنا
ظالمانہ نظام کا تیسرا اور انتہائی مؤثر ہتھیار فکری انتشار پیدا کرنا ہے۔ فکری انتشار کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے درمیان نظریاتی، مذہبی، سماجی اور سیاسی اختلافات کو ہوا دی جائے، تاکہ وہ آپس میں اُلجھے رہیں اور ظالم کے خلاف متحد نہ ہوسکیں۔ جب قوم میں فکری انتشار پھیل جاتا ہے تو وہ کبھی بھی متحد ہو کر اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑسکتی۔
فکری انتشار کا نقصان
ظالمانہ نظام میڈیا، تعلیمی اداروں اور دیگر ذرائع کو استعمال کرکے عوام کے درمیان نفرت اور تفریق کے بیج بوتا ہے۔ یہ نظام مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے عوام کا دھیان اپنے اصل دشمن سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فکری انتشار کی وَجہ سے قوم اپنی قیمتی توانائیوں کو باہمی تنازعات میں ضائع کرتی رہتی ہے اور ظالم کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہونے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔
مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر
مولانا سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "جب بھی کوئی قوم کسی دوسری قوم کو غلام بنانا چاہتی ہے تو وہ معاشرے کے تین بنیادی (سیاسی، معاشی اور فکری) اجزا پر حملہ آور ہوتی ہے"۔ آپ کے مطابق "اگر کسی قوم کی سیاسی اور معاشی حالت تباہ بھی کر دی جائے مگر اس کی فکر زندہ ہو تو وہ قوم دوبارہ اپنا معاشی اور سیاسی غلبہ حاصل کرسکتی ہے۔ تاہم اگر فکری موت واقع ہو جائے تو پھر قوم کا دوبارہ اُٹھ کر کھڑا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے"۔
یہی وَجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر اسلامی فکر اور اس پر تعلیم وتربیت کے نظام کو محفوظ رکھا اور آج اسی راستے پر چلتے ہوئے ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ نوجوانوں کی فکری و تربیتی نشوونما میں مصروفِ عمل ہے۔
عصر حاضر کا تقاضا
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کریں، معاشی طور پر مضبوط بنائیں اور ان کے درمیان فکری انتشار کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ صرف اسی طریقے سے ہم ایک منصفانہ اور ترقی یافتہ معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔
ادارہ رحیمیہ علوم قرانیہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایسا ہی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، تاکہ نوجوانوں کو اجتماعی ڈسپلن میں منسلک کرسکے۔ ہم نوجوان صرف اسی طریقے سے ہی ایک منصفانہ اور ترقی یافتہ معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔