تجزیہ کاری: مفہوم اور تقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تجزیہ کاری: مفہوم اور تقاضے

    .....

    By عبدالرحمان Published on Apr 21, 2020 Views 17877
    تجزیہ کاری :  مفہوم اور تقاضے
    تحریر: عبدالرحمان آزادؔ، ڈیرہ اسماعیل خان

    پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر  تجزیوں کی بھرمار  ہے ۔کیا یہ تجزیے درست بنیادوں پر کیے جارہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تجزیہ کاری کے مفہوم اور تقاضوں کا جائزہ لیا جائے،کیونکہ تجزیہ کی درست بنیاد نہ ہونے  سے معاشر ے میں موجود مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ اور گھمبیر ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی ذہن منتشر اور مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ تجزیہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں "کسی چیز کے اجزاء کو الگ الگ کرنا"۔اصطلاح میں  تجزیہ ایسی رائے کو کہتے ہیں جو برے بھلے یا صحیح اور غلط میں تمیزپیدا کردے تجزیہ  ماضی کے حالات و واقعات یا معاشرتی نظاموں کے بارے میں ہوتا ہےیا حال اور مستقبل کے بارے میں، لیکن جب تک کسی چیز کے ماضی کا  درست تجزیہ نہ کیا جائے  تب تک اس کے حال کا بہتر جائزہ ممکن نہیں ۔اسی طرح جب حال  کادرست تجزیہ نہ ہو تو مستقبل کے بارے میں کوئی درست رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔
    درست تجزیہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب تجزیہ کا مقصد اور دائرہ کار واضح ہو، موضوع سے متعلقہ درست معلومات  فراہم ہوں اور  تجزیہ نگار میں متعلقہ امور کے حوالے سے تجزیہ کی صلاحیت   پائی جاتی ہو۔یعنی  تجزیہ کاری کو تین  حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
    1۔ تجزیہ کا مقصد اور دائرہ کار
    2۔ موضوع سے متعلقہ معلومات
    3۔ تجزیہ کار کا معیار
    ذیل میں ان امور کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
    1۔ تجزیہ کا مقصد اور دائرہ کار 
    تجزیہ کا ری میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ تجزیہ کا مقصد اور دائرہ کار کیا ہے۔ 
    i. تجزیہ محض تفریحی عمل  ہے  یا ذہنی مشق   یاانسانی سماج کے کسی اہم مسئلہ کا حل  مقصود ہے۔
    ii. تجزیہ  پیشہ وارانہ   ذمہ داریوں یا ملازمت کا تقاضا  تو نہیں  ہے۔
    iii. تجزیہ کا تعلق انسانی سماج کے کس دائرے   سے ہے ؟ فکر وفلسفہ،سیاست ،معیشت یا اخلاقیات وغیرہ سے
    iv. جس دائرے سے  تجزیہ کا تعلق  ہےاس کے مقاصد و مفاسد  کے تناظر میں بات واضح کی گئی ہے یا نہیں۔
    2۔ موضوع سے متعلقہ معلومات 
    تجزیہ کرنے سے پہلے  موضوع سے متعلقہ معلومات  کی تحقیق  مندرجہ ذیل دو طریقوں سے کی جاسکتی ہیں۔
    i. خارجی معلومات
    ii. داخلی معلومات
    i. خارجی معلومات:
    خارجی تحقیق میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو معلومات تجزیہ کا ر تک پہنچ رہی ہیں اس کے ذرائع کیا ہیں ؟ اور ان کا معیار کیا ہے؟ خارجی تحقیق میں درج ذیل باتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
    ا۔معلومات کے ذرائع  ایک ہیں یا زائد۔
    ب۔ذرائع عینی شاہد ہیں  یا کسی واسطہ سے معلومات رکھتے ہیں۔
    ج۔ ذرائع آزاد ہیں یا جانب دار ہیں۔ جھوٹ کے حوالے سے مشہور تو نہیں ہیں۔
    د۔ذرائع کی  دل چسپی  معلومات کے کسی  ایک پہلو سے تو نہیں ہے۔
    ہ۔ ذرائع نے معلومات کو ترتیب  کسی خاص  مقصد کے تحت  تو نہیں دیا۔
    و۔ ذرائع  معلومات غلط وقت میں تو نہیں دے رہے۔
    ظ۔ذرائع صرف معلومات  منتقل کررہے ہیں یا  اپنا تجزیہ بھی اس میں شامل کررہے ہیں۔
        ٭داخلی معلومات:
    داخلی معلومات میں درج ذیل باتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
    ا۔معلومات میں تضادات تو موجود نہیں ہیں۔
    ب۔ معلومات مبہم  یا  وضاحت طلب  تو نہیں ہیں۔
    ج۔ معلومات میں کمزور باتوں کو مضبوط باتوں سے زیادہ نمایاں تو نہیں کیا گیا۔
    د۔معلومات مشاہد ات  ، تجربات پرہیں یا کتابی بنیاد ہر ہیں یا محض اٹکل پچو اور اندازے ہیں۔
    ہ۔معلومات مسلّمات ،عقل یا تجربے کے خلاف تو نہیں ہیں۔
    و۔ معلومات میں مبالغہ آرائی تو نہیں ہے۔
    ظ۔معلومات میں تعصب تو نہیں پایاجارہا۔
    3۔تجزیہ کار کا معیار 
    درست تجزیہ کے لیے تجزیہ کار  میں مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا اہمیت  کا حامل ہے۔
    i. فطرت انسانی کی اساس  پر درست یا غلط پہلوؤ ں کا  مکمل فہم رکھتا ہو جو تجزیہ کے مقاصد اور دائرہ کار میں طے شدہ  ہوں ۔ مثلاً فکر و فلسفہ: وحدت،گروہیت یا انفرادیت ۔معیشت: عدل یا ظلم۔ سیاست: قومی جمہوریت یا شخصی و گروہی آمریت وغیرہ  
    ii. متعلقہ موضوع  پر مہارت رکھتا  ہو
    iii. معلومات میں ربط و تطبیق کی صلاحیت رکھتا ہو
    iv. معلومات کی اساسیات پر گرفت ہواور درست نتائج  اخذکرے
    v. ذاتی جذبات کو تجزیہ پر حاوی نہ ہونے دے۔ طبیعت میں جلد بازی نہ ہو۔ 
    vi. احساس کمتری یا  مرعوبیت کا شکار نہ ہو
    vii. تجزیہ کا انداز آسان فہم ہو  بے جا طوالت نہ  ہو
    مندرجہ بالا تمام تمام امور  تجزیہ نگار ، محقق اور مضمون نگار کو درست تجزیہ میں معاون ثابت ہوں گے۔تاہم یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ  تحقیق کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں کیونکہ مضمون کی نوعیت بدلنے سے اس کے طریق تحقیق پر بھی اثر پڑتا ہے۔
    Share via Whatsapp