جھوٹ کا دفاع اور غیر منطقی رویے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جھوٹ کا دفاع اور غیر منطقی رویے

    جھوٹ کو چھپانے کے لیے غیر منطقی رویے کا جائزہ

    By محمد علی Published on Jun 23, 2025 Views 210

    جھوٹ کا دفاع اور غیر منطقی رویے

    تحریر: محمد علی۔ ڈیرہ اسماعیل خان

     

    ششی تھرور کو پہلی دفعہ آکسفورڈ یونین میں سنا، برطانوی لوٹ کھسوٹ پہ ان کا مقدمہ مدلل اور شان دار تھا،انھوں نے اپنے مقدمے کا اختتام اس بات پہ کیا کہ برطانیہ کو معافی مانگنی چاہیے اور Reparations(تلافی) کرنی چاہیے۔

    اگلی دفعہ ان کو سننے کا اتفاق الجزیرہ کے پروگرام اپ فرنٹ میں ہوا،مہدی حسن نے آکسفورڈ یونین میں ان کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ اگر کل کو کشمیر آزاد ریاست بن جائے تو کیا آپ انھیں Reparations ادا کریں گے؟ اس کے بعد تھرو نے قدرے Subjective ہوتے ہوئے جواب دیا کہ برطانوی لوٹ کھسوٹ کا اطلاق کشمیر پہ نہیں ہوتا،جو قدرے منطقی بات ہےکہ وہاں کے وسائل اس پیمانے پہ نہیں لوٹے گئے، جس طرح برطانوی سامراج نے ہندوستان کے وسائل لوٹے،لیکن جب مہدی حسن نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ چلو آپ کشمیر میں ہونے والے ظلم پہ ان سے معذرت کریں گے؟تو ششی تھرو آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آئے!

    اس کے بعد حالیہ پاک بھارت جھڑپ پہ العربیہ انگلش کو دیا گیا ان کا انٹرویو سنا،جس میں اینکر نے سوال کیا کہ آپ کے پاس پہلگام میں ہونے والے واقعے پر کیا ثبوت ہے؟تو ششی تھرور کا جواب تھا کہ ہمارے پاس circumstantial evidence اور انٹیلیجنس کی معلومات تھیں،جس کی بنیاد پہ یہ آپریشن conduct کیا۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی ملک کی سالمیت Breach(توڑنے) کے لیے circumstantial evidence کافی ہے؟کیا اس کی بنیاد کسی concrete evidence پہ رکھنا بہتر نہ ہوتا؟

    آگے چل کے اینکر نے بھارتی حملے میں سول لوگوں کی اموات کے متعلق سوال کیا تو ششی تھرور نے انھیں collateral damage کہتے ہوئے،اس کی حساسیت کو معمولی ثابت کرنے کی کوشش کی(جہاں بھی عام آدمی مرے،چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو میرے نزدیک غلط ہے)۔

           تھرور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، لیکن Jingoism اور Subjective approach کے بعد اس خاص موضوع پہ ان کی حیثیت زید زمان حامد سے زیادہ نظر نہیں آرہی۔

    گزشتہ دنوں بھارت کے ایک معروف شاعر  نے بیان دیا کہ میں پاکستان جانے سے جہنم جانے کو ترجیح دوں گا۔یہ بیان حیران کن ہے کہ یہ ایک شاعر کا بیان ہے،شاعر اتنے انتہاپسند اور محدود سوچ کیسے رکھ سکتے ہیں؟شاعر کسی خاص مذہب،قومیت یا جغرافیہ کا نہیں ساری انسانیت کا ترجمان ہوتا ہے،وہ نفرتیں نہیں،محبتیں بانٹنے والا ہوتا ہے،وہ اتنا زہر آلودہ بیان کیسے دے سکتا ہے؟اسے تو اپنی شاعری سے محبت،امن اور بھائی چارے کا پیغام دینا چاہیے تھا،شاعر کب سے جغرافیہ،مذہب اور قومیت میں قید ہو گئے؟اتنی Subjective approach کیسے؟

    حضور آپ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی مذمت کریں،آپ کی تائید کی جائےگی، اجتماعیت پسند لوگ مسعوداظہر،پیرصلاح الدین اور حافظ سعید کو درست تسلیم نہیں کرتے،اس لیے آپ اپنی رائےمیں توازن قائم کریں۔

     


    Share via Whatsapp