متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں اور موجودہ پاکستان میں پشتونوں کے حالات کی مماثلت
تاریخ کے اوراق میں جب ہم متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی، معاشی، تزویراتی اور سماجی حیثیت کا مطالعہ کرتے ہیں، تو۔۔۔۔

متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں اور موجودہ پاکستان میں پشتونوں کے حالات کی مماثلت
تحریر: پروفیسر نیک الرحمٰن۔ پشاور
تاریخ کے اوراق میں جب ہم متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی، معاشی، تزویراتی اور سماجی حیثیت کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں ایک حیرت انگیز مشابہت نظر آتی ہے جو موجودہ پاکستان میں پشتون قومیت کی موجودہ پوزیشن سے ملتی جلتی ہے۔ یہ مشابہت محض اتفاقی نہیں، بلکہ ایک گہری فکری مماثلت اور تاریخی تسلسل کی آئینہ دار ہے۔ متحدہ ہندوستان کی مضبوط پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے انگریزوں نے مختلف حربے استعمال کیے ۔ انھوں نے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے پروپیگنڈا شروع کیا۔ اکثریت و اقلیت کا منفی نعرہ، فرقہ وارانہ تصورات اور باہمی اختلافات کو ہوا دی۔ آج اسی نوعیت کی پالیسیاں اور حربے پاکستان میں پشتون قومیت کے خلاف دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ مماثلت معاشی، تزویراتی ، سیاسی ، عددی اور مخلص قیادت کی کمی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے ۔
1۔ معاشی مرکز کی مماثلت
متحدہ ہندوستان میں بنگال "بریڈباسکٹ" کے طور پر مشہور تھا۔ اس کی زرخیز زمینیں، محنتی کسان اور پانی کی فراوانی نے اسے زرعی لحاظ سے سب سے اہم خطہ بنایا تھا۔ صنعتی لحاظ سے کلکتہ پورے برصغیر کا دل سمجھا جاتا تھا، جہاں مسلمان اکثریتی آبادی معاشی سرگرمیوں کا محور تھی۔ اسی طرح پاکستان کا معاشی مرکز کراچی میں پشتون لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں اور ٹرانسپورٹ، تعمیرات، کاروبار اور صنعتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس طرح بنگال کے بغیر متحدہ ہندوستان کا معاشی نظام نامکمل تھا، ویسے ہی کراچی میں پشتونوں کے بغیر پاکستان کی معیشت کا تصور دشوار ہے۔
2۔ تزویراتی مرکز مماثلت
متحدہ ہندوستان کا تزویراتی مرکز شمال مغربی خطہ (موجودہ پاکستان) تھا جو بیرونی حملہ آوروں کا پہلا ہدف ہوتا تھا، لہٰذا اس کی دفاعی اہمیت مسلمہ تھی۔ یہاں بھی مسلمان اکثریت میں تھے۔پاکستان کا موجودہ دفاعی محاذ بھی خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقے ہیں، جہاں پشتون رہتے ہیں۔ پاکستانی فوج، سرحدی سیکیورٹی اور قومی دفاع میں پشتونوں کا کردار نمایاں ہے۔ وہی حکمت عملی، وہی قربانیاں اور وہی اسٹریٹیجک اہمیت آج بھی قائم ہے۔
3۔ سیاسی مرکز مماثلت
متحدہ ہندوستان کا سیاسی مرکز دہلی اور دوآبہ کا خطہ تھا، جہاں مسلمانوں کی کثیرتعداد مغلیہ حکومت اور بعدازاں سیاسی تحریکوں کی بنیاد تھی۔ پاکستان میں سیاسی مرکز راولپنڈی،اسلام آباد ہے، جہاں پشتونوں کی سیاسی شرکت اور اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ افواج، بیوروکریسی، پارلیمان اور سیاسی جماعتوں میں پشتونوں کی موجودگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
4۔ عددی مبالغہ آرائی
مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ جیسے اکابر علما نے ہمیشہ اس نظریے کو تقویت دی کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان عددی لحاظ سے اقلیت میں نہیں تھے، بلکہ ان کی حقیقی طاقت، شعور، اثر و رسوخ اور تزویراتی حیثیت نے انھیں اکثریت کا مقام دیا۔ آج اگر انھی پیمانوں پر موجودہ پاکستان کو پرکھا جائے، تو پشتون قومیت کی پوزیشن متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں سے بہت حد تک مشابہ نظر آتی ہے۔
متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کے بارے میں جو بیانیہ پیش کیا گیا، اس میں حقیقت کے برعکس مبالغہ تھا۔ اگر شودر، دِلت، سکھ، قبائل، جین، بدھ اور دیگر غیرہندو اقلیتوں کو الگ کیا جائے، تو ہندوؤں کی اصل تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی، جتنی دکھائی گئی۔ پاکستان میں بھی پنجابی قومیت کے متعلق ایسا ہی بیانیہ گھڑا گیا ہے۔ اگر سرائیکی، پوٹھوہاری اور دیگر متنوع شناختوں کو الگ کیا جائے، تو "اصل پنجابی" وہ بڑی اکثریت نہیں رہتے، جن کے نام پر دیگر قومیتوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ صرف وفاقی توازن کو متاثر کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔
5۔ کمزور قیادت کی مماثلت
تقسیم ہند کے وقت مسلم قیادت میں نظریاتی اور عملی خامیاں موجود تھیں، جن کی وَجہ سے مسلمان اپنے سیاسی و جغرافیائی مفادات کا مکمل تحفظ نہیں کر سکے۔ اسی طرح آج پشتون قوم پرست قیادت بھی نظریاتی ابہام، اندرونی تقسیم اور عملی حکمت عملی کے فقدان سے دوچار ہے۔ نہ ان کے پاس کوئی واضح روڈ میپ ہے، نہ ہی کوئی متحد سیاسی قوت۔
یہی وَجہ ہے کہ جس طرح ہندوستان کی تقسیم سے مسلمان کمزور ہوئے، خدا نہ کرے پاکستان کی ممکنہ تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان پشتونوں کا ہوگا، خصوصاً وہ جو کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، مظرآباد یا دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔ نہ وہ آسانی سے واپس جا سکیں گے، نہ نئے علاقوں میں قبولیت پائیں گے، اور نہ ہی وہاں کے مقامی حالات کے رحم و کرم پر زندہ رہ سکیں گے۔
خلاصہ کلام
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جو حقیقی حیثیت تھی، وہ صرف عددی نہیں، بلکہ تہذیبی، فکری، معاشی، دفاعی اور سیاسی لحاظ سے ایک "اکثریتی مقام" تھا۔ یہی حیثیت آج پاکستان میں پشتونوں کو حاصل ہے۔ اگر وہ اپنی تاریخی حیثیت کو سمجھیں، اتحاد پیدا کریں، دانش مند قیادت کو فروغ دیں اور مرکز میں اپنا جائز کردار ادا کریں، تو ان کا اور پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے، اور نقصان کا سب سے بڑا بوجھ بھی انھی کو اُٹھانا پڑے گا۔
حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ : "مسلمان تکبر میں مبتلا ہو کر اپنے انجام کو بھول رہے ہیں۔ مجھے ان کے مستقبل کی فکر ہے۔"
یہ بات آج پشتون قیادت اور عوام کو اپنے لیے نشانِ عبرت بنانی چاہیے۔ اگر وہ بھی نسلی فخر، سیاسی خودغرضی اور وقتی نعرہ بازی میں لگے رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا مقدر بھی اگلے سو سال کے لیے ایک نئے عذاب کی شکل اختیار کر لے۔