اخلاقیات و ماحول کا تعلق
اخلاق یا تہذیب خالصتاً کسبی چیزیں ہیں جو انسان اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ اگر کسی اعلیٰ ذات کے بچے کو ایسے معاشرے میں پروان چڑھایا جائے،جس میں۔۔۔۔۔
اخلاقیات
و ماحول کا تعلق
تحریر:
محمد علی، ڈیرہ اسماعیل خان
آپ
نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ نسل نسل ہوتی ہے اور عادتیں نسلوں کا پتہ
دیتی ہیں۔ یہ جملہ سوشل میڈیا پر پائے جانے والے نام نہاد دانش وروں کا ہے جو ہجوم
کی نفسیات سے ترتیب پایا ہے، اس جملے کا تحلیل و تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس جملے
کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ دانش ور حضرات اصیل مرغ جرسی نسل کی گائے یا کسی
دوسرے جانور کی مثالیں دیتے ہیں، ان دانش وروں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی
کہ جن جانوروں کی مثالیں وہ پیش کر رہے ہیں وہ ان کی جنیاتی خصوصیات ہیں،مثلاً
اصیل مرغ کے پٹھوں کا مضبوط ہونا یا جسامت میں بڑا ہونا جینیاتی طور پر ہے، نہ کہ
کسبی "جیسےاوصاف کے"طور پر۔ اسی طرح جرسی نسل کی گائے کا زیادہ دودھ
دینا بھی کسبی نہیں، بلکہ جنیاتی معاملہ ہے۔
گائے
کی اس نسل کو جنیٹک انجینئرنگ سے اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ زیادہ دودھ دیتی ہے،
اس میں مرغ یا گائے کا کمال نہیں۔ اس مثال کو انسانوں کے اخلاق پر منطبق کرنا
جہالت کے سوا اور کچھ نہیں۔
درج
بالا معاملے سے ان دانش وروں کا مقصد چھوٹی ذات(ان کے نزدیک چھوٹی ذات) کے
اخلاقیات کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ اس مثال سے یہ حضرات یہ باور کروانا چاہتے
ہیں کہ اعلیٰ ذات(جو ان کے نزدیک اعلیٰ ہے)ان میں پیدا ہونے والے بچے خوش اخلاق
اور مہذب ہوتے ہیں، حال آں کہ ایسا نہیں۔
اخلاق
یا تہذیب خالصتاً کسبی چیزیں ہیں جو انسان اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ اگر کسی
اعلیٰ ذات کے بچے کو ایسے معاشرے میں پروان چڑھایا جائے،جس میں جھوٹ،چوری،بےایمانی،بددیانتی،ملاوٹ،دھوکہ
دہی بھوک،بدامنی،وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم،روٹی کپڑا مکان جیسی بنیادی سہولیات کی
محرومی، جان مال اور آبرو کا عدم تحفظ رائج ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ اس بچے کی
اخلاقیات تباہ شدہ ہوں گی،وہ بد اخلاق اور غیرمہذب ہوگا۔
اس
کے برعکس اگر ایک نیچ ذات کے بچے کو ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھایا جائے، جس میں
دیانت داری، راست گوئی، صلہ رحمی، عدل و انصاف، خوش اخلاقی، بڑوں کا ادب،چوری ڈاکے
کی ممانعت اور اس کو برا سمجھنا،ایک دوسرے کی مدد کرنا،وسائل کی برابر
تقسیم،روٹی،کپڑا،مکان،عزت آبرو اور جان مال کاتحفظ جیسے اوصاف شامل ہوں تو عین
ممکن ہے کہ وہ بچہ ان تمام خصائل کا مالک ہوگا۔
پہلا
بیان کردہ نظریہ یوجینکس کی تحریک سے جڑا ہوا ہے،جب کہ دوسرا بیان کردہ نظریہ
ہندوستان کی عظیم علمی ادبی شخصیت حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے جڑا ہوا ہے۔
امام
شاہ ولی اللہؒ اس نظریے کے علمبردار ہیں کہ انسانی اخلاق خالصتاً سوسائٹی سے جنم
لیتے ہیں،اگر سوسائٹی کا فکر و فلسفہ عادلانہ بنیادوں پر مبنی ہے، یعنی اس میں
سیاسی سماجی اور معاشی نظام ہائے زندگی اسلام کے عادلانہ اصولوں پر مبنی ہے،اس میں
وسائل کی تقسیم منصفانہ ہے،ہر انسان کو اس کی بنیادی ضروریات میسر ہیں،معاشرے میں
عدل و انصاف کا دور دورہ ہے،تو ایسا معاشرہ اخلاقیات کے حوالے سے ایک مثالی معاشرہ
ہوگا۔
اسی
حوالے سے ایک حدیث نبوی بھی ہماری راہ نمائی فرماتی ہے، جس کا مفہوم ہے کہ غربت
انسان کو کفر تک لے جاتی ہے،یعنی ایک غریب آدمی یا ایک ایسی سوسائٹی،جس میں
انسانوں پر بھوک مسلط کی جائے، ان کو بنیادی ضروریات مہیا نہ کی جائیں،ان کے وسائل
پر چند افراد کا قبضہ ہو،لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو،تو عین ممکن ہے کہ ایسے معاشرے
میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہوگی۔
بدقسمتی
سے پاکستانی معاشرہ اسی ظلم،استحصال،طبقاتیت،تقسیم اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا شکار
ہے۔لہذا یہاں وہ اخلاق جو دینِ اسلام کے نظامِ عبادات کے پیشِ نظر ہیں، پیدا نہیں
ہوئے۔
اس
چیز کو جدید کریمینالوجی بھی تسلیم کرتی ہے کہ اگر دیوار کے ایک طرف ایسے لوگ رہتے
ہیں، جن کے پاس مال و دولت ہےاور زندگی گزارنے کی سہولیات میسر ہیں،جب کہ دوسری
طرف ایسے لوگ رہتے ہیں، جن کے پاس زندگی گزارنے کی سہولیات اور وسائل نہیں اور وہ
بھوک اور معاشی تنگی کا شکار ہیں،تو ایک دن بھوک اور معاشی تنگی کا شکار لوگ، خوش
حال اور وسائل سے مالا مال لوگوں پر حملہ آور ہوجائیں گے۔
اس
گفتگو کے تناظر میں سوشل میڈیا پر کثرت سے گردش کرتے ہوئے ایک واقعے پر نظر ڈالتے
ہیں۔ حال ہی میں تقابل ادیان کے ایک ماہر (جو پاکستان کے دورے پر ہیں) سے ایک
تقریب کے دوران ایک طالبہ نے اپنے علاقے کے عمومی ماحول کے بارے میں سوال پوچھا کہ
وہاں لوگ بظاہر تو بہت مذہبی ہیں، لیکن لوگ بچوں سے بدفعلی اور دیگر
غیراخلاقی اعمال میں مبتلا ہیں، اس کی کیا وَجہ ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب نہایت ہی
آسان اور سادہ سا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں اسلام صرف بہ طور رسمی مذہب(یعنی
عبادات کی ظاہری شکل وصورت میں) رائج ہے۔ لیکن بہ طور دین(سسٹم) اس کا سیاسی معاشی
اور معاشرتی نظام نافذ نہیں، جس کی وَجہ سے عبادات اپنے مطلوبہ نتائج دینے میں
ناکام ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ایک معاشرہ جس میں سرمایہ داریت کے اصول غالب
ہوں، وسائل کی تقسیم غیرمنصفانہ ہو، لوگوں پر بھوک مسلط کی جارہی ہو، معاشرہ سماجی
طور پر طبقات میں تقسیم ہو اور ان سے عبادات کے مطلوبہ نتائج بھی برآمد ہوں-
عبادات کے مطلوبہ نتائج تب حاصل ہوتے ہیں، جب دینِ اسلام بہ طور سسٹم نافذ ہو۔ یعنی دوسرے معنوں میں ایک ایسا معاشرہ جس میں وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو، لوگوں پر بھوک مسلط نہ ہو ان کو سماجی اور معاشرتی سطح پر عدل مہیا ہو،کسی طرح کی طبقاتیت نہ ہو،کسی کا استحصال نہ ہو،کوئی خاص گروہ ہی منظورِنظر نہ ہو،سب انسانوں کو بلاتفریق رنگ،نسل،مذہب بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں،تب عبادات بھی اپنے مطلوبہ نتائج دیں گی اور معاشرہ اخلاقی اور تہذیبی لحاظ سے بھی ترقی کرے گا۔مطلب یہ کہ دینِ اسلام کے صرف ایک جزو(عبادات)کو نافذ کرنا اور وہ بھی محض رسمی طور پر، لیکن اس کے سیاسی معاشی اور سماجی نظام کو معطل کیے رکھنا نتائج پیدا نہیں کرتا۔