انسان دوستی کی طرف ایک قدم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسان دوستی کی طرف ایک قدم

    کوئی بات نہیں! یہ جملہ بظاہر ایک عام سا جملہ ہے مگر درحقیقت یہ ایک نظریہ، ایک طرزِ فکر اور ایک پورا نظام ہے۔

    By Sufian Khan Published on Apr 18, 2025 Views 176

    انسان دوستی کی طرف ایک قدم 

    تحریر: سفیان خان ۔بنوں

     

    ایک دن میں گھر میں داخل ہوا تو بیگم کافی خوف زدہ نظر آئی۔ ڈرتے ڈرتے مجھے بتایا کہ آپ کا پاسپورٹ کپڑوں کے ساتھ دھل چکا ہے۔ یہ سن کر میرے قدموں تلے زمین نکل گئی، کیوں کہ مجھے چند دِنوں میں ایک اہم سفر درپیش تھا۔ میں سخت ردِعمل دینے ہی والا تھا کہ اللہ کی رحمت سے مجھے ایک شعر یاد آ گیا اور میں مسکراتے ہوئے بول پڑا۔ 

     

    یہی وفا کا صِلہ ہے تو کوئی بات نہیں                          اَب کیا ہوت جب بیگم دھوگئی پاسپورٹ

     

    رحمدلی، تحمل،  برداشت  اور دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کرنےکی عادت  گھر میں  ایک منظم تربیتی عمل کو جنم دیتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی، بچوں، ماتحتوں اور کمزوروں کے ساتھ شفقت اور درگزر سے پیش آتا ہے تو یہ درحقیقت اس تربیت کی عکاسی ہے جو اسے گھر سے یا ماحول سے ملی ہے۔

    مسلم معاشروں میں خاندانی نظام کی تشکیل و تعمیر میں علمائے ربانی و اولیاء اللہ کا ناقابل فراموش  کردار سامنے آتا ہے کہ انھوں نے دینی  تعلیمات کی روشنی میں  عفوودرگزر کی عملی مثال پیش کرکے اس رویے کو راسخ کیا ۔  

    یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ خاندانی نظام کی بقا ہی دراصل کسی معاشرے کی بقا کی بنیاد ہوتی ہے ، جہاں سب  خاندان کی نیک نامی کے احساس کے ساتھ  مل جل کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

    خاندان سے آگے بڑھ کر انسان دوستی کون اور کیسے سکھائے؟

    کسی بھی معاشرے میں یہ ذمہ داری نظام کی ہوتی ہے۔ ایک صالح اور انسان دوست نظام   اپنے تعلیمی نصاب، اساتذہ، میڈیا اور ریاستی اداروں کے ذریعے افراد کی ایسی ٹریننگ کرتا ہے کہ وہ درگزر اور انسان دوستی کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ملک کا تعلیمی  نظام صرف غلام یا نوکر شاہی پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہو تو معاشرے کے حساس لوگ(جن میں والدین اساتذہ اور بزرگ شامل ہوتے ہیں ) کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں یہ خرابی نظام کا اَثر ہے۔ اس لیے وہ محبت اور شفقت  سے افراد کو قریب لاکر زندگی  کا سلیقہ  سکھاتے ہیں۔ 

    انسان دوست سماج کی تشکیل کیوں اور کیسے؟ 

    سیرت طیبہ کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اعلانِ نبوت سے  پہلے آپ صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے ۔یہ وہ بنیادی نکتہ ہے کہ شعوری سماجی تبدیلی کا  یہ عالمگیر نظریہ صحرا نما عرب  کو دنیا کا امام بنا گیا۔ سیرت طیبہ پرعمل کرنے سے  ضمیر انسانی کی بنیادی صفات کو اجاگر کرنا آسان ہوجاتا ہےاور ایک مشترکہ اساس یعنی بنیاد ہماری استعداد میں اضافہ کرتی ہے۔      

    اس لیے اگر ہمیں ”کوئی بات نہیں“ (یعنی اپنی غلطی تسلیم کرنا اور معاف کرنے کے جزبے پر مبنی )  اجتماعی اَثر رکھنے والامعاشرہ  بنانا ہے تو ہمیں ایک ایسا نظام  تشکیل دینا ہوگا جو افراد کی اس نہج پر تربیت کرے کہ وہ سنجیدگی، تحمل و بردباری  سے زندگی کے عام معاملات میں درگزر اور رحم دلی کا مظاہرہ  پیش کرسکیں۔

    اقربا کی غلطیوں پر”کوئی بات نہیں“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دربار میں توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے ۔ ہمیں اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ صفت ان میں پیدا ہوتی ہے ،جن پر اللہ کا کرم ہوجاتا ہے۔ وہ ہمارے جیسے ہی انسان ہوتے ہیں۔وہ آنے والے کل کے لیے اپنا آج قربان کرتے ہیں انہی دنیا ماں باپ، استاد، اولیاء اللہ، علمائےربانی جیسے ناموں سے بھی یاد کرتی ہے ۔وہ انسانی دِلوں کو محبت سے  بدلنے کا ہنر سکھاتے ہیں ۔

    انسانی معاشرے یوں ہی آگے بڑھتے ہیں۔

    Share via Whatsapp