اولاد کی تربیت میں والدین کے رویّوں کا کردار
اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے انکی بہترین تربیت کی فکر کرو،سہولتوں کی نہیں۔۔۔۔۔۔!!
اولاد کی تربیت میں والدین کے رویّوں کا کردار
تحریر؛ محبوب الرحمن سہر، اوگی
انسان کا مقصدِ حیات انتہائی اعلیٰ و ارفع ہے۔دوسری تمام مخلوقات پر انسان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس کی جبلّت میں خیر و شر کا مادہ شامل کر دیا گیا ہے، تاکہ خیر و شر کو سامنے رکھتے ہوئے حضرتِ انسان اپنے لیے فوائد سمیٹنے کے ساتھ دوسرے انسانوں کے لیے بھی سودمند ثابت ہو سکے۔
انسان کی عائلی و سماجی زندگی کی ابتدا ٕ اپنے گھر سے ہوتی ہے۔معاشرتی زندگی میں گھر کی حیثیت بنیادی اکائی کی ہے۔ گھر کا ہر فرد اس اکائی کو جوڑنے اور مضبوط و توانا بنانے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔نومولود بچے کے لیے گھر کی چاردیواری کو اگر دنیا کا آخری کونہ تصوّر کیا جائے تو گھر کے باقی افراد اس بچے کے لیے سامانِ زندگی ہوں گے ۔ والد اس بچے کے لیے مسیحا، جب کہ والدہ اس کی کل کائنات مانی جائے گی۔
بچے کی پیدائش کے بعد اس کے اچھے برےہونے میں جہاں اس کی جینیاتی اکائیوں کا عمل دخل ہوتا ہے، وہیں تربیت و ماحول بھی اس بچے کی عادات و اطوار پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ایامِ طفولیت میں بچے کو مناسب ترین ماحول فراہم کرنے اور اس کی فطری صلاحیتوں کو نکھارنے میں والدین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔طفلی یعنی ابتدائی زندگی میں بچے اپنے گھر کے ماحول اور والدین کے رویّوں کو سیکھ کر اگلی عمر یعنی بچپن و لڑکپن میں ان رویوں کو عادتاً اپناتے نظر آتے ہیں۔گھر کے افراد بالخصوص والدین کو اس سلسلے میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، تاکہ اولاد اپنے والدین سے مثبت عادات سیکھ کر اپنی عملی زندگی میں والدین،خاندان اور کنبہ و قبیلہ کے لیے عزت کا باعث بن سکے۔
گھر میں والدین کے اختلافی عمل،باہمی سخت رویّے اور نازیبا الفاظ کا استعمال بچے کی ذہنی نشوونما اور بول چال پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔یہاں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ والدین کے آپسی اختلاف اور باہمی رنجش کو بچوں کے سامنے ذکر کرنے سے اجتناب کیا جائے،جب کہ ایسی کوئی بھی غیریقینی کی صورتِ حال پیش آنے پر صبر کا دامن لازم پکڑا جائے، تاکہ بچے بھی ”صبر و تحمل اور برداشت“جیسی اہم صفات کو اپنی عملی زندگی کے لیے بہ طورسبق یاد رکھیں۔والدین کے باہمی سوال و جواب اور بات چیت کااسلوب بھی بچے کے لیے ”باادب“ بننے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا یہ عنصر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ایام طفولیت میں بچہ اپنی مادری زبان،خاندانی رشتوں،اشیائے زندگی اور طرزِمعاشرت کےبارے والدین کے قول، فعل اور عمل کو دہرا رہا ہوتا ہے۔اس حوالے سے والدین اپنی اولاد میں”منفی رویوں کے بجائے مثبت رویّے“پروان چڑھائیں۔ہمارے ہاں یہ بات عموماً دیکھنے کو ملتی ہے کہ والدین اپنے عزیز و اقارب سے جُڑی رنجشیں اور ماضی کے تلخ حقائق کو اپنے بچوں کے سامنے ذکر کرتے ہیں، جب کہ بعض دفعہ نفرت کا آمیزہ تیار کر کے اپنے بچوں کے ذہن میں باقاعدگی سے انڈیل رہے ہوتے ہیں۔بہ ظاہر یہ ایک عام فطری عمل گردانا جاتا ہے، لیکن درحقیقت والدین کی طرف سے بچوں کے ذہن میں منفی بیج بونے کے مترادف ہے۔ اس تخریبی سوچ کے اثرات مستقبل میں بچے کی عملی زندگی کے ساتھ ساتھ خاندانی اکائیوں پر گہرے اثرات مرتب کر تے ہیں۔
طفلی عمر کے بعد لڑکپن کا زمانہ بھی اولاد کی تربیت کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس دوران بچے کی طبعی بالیدگی کی بہ نسبت ذہنی نشوونما زیادہ توجہ چاہتی ہے۔اس عمر میں بچوں کو تعلیمی رجحان اور دلچسپی کے لیے سامان بہم پہنچایا جائے۔یہاں یہ بات خاص توجہ کی حامل ہےکہ کبھی بھی اپنے بچوں کے درمیان یا اپنے بچے کا کسی بھی دوسرے بچے کے ساتھ ”موازنہ یا مقابلہ“نہ کیا جائے۔ہر بچہ فطرتاً دوسرے بچے کی بہ نسبت جدا خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔پیدائشی طور پر ہر بچہ بہت سی خدا داد صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔جب والدین اپنے بچے کا موازنہ کسی بھی دوسرے بچے سے کمی بیشی کے تناظر میں کر رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت ان کا یہ عمل خلقت ربّانی میں دخل دینے کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کو ”مایوس اور ڈی گریڈ“کرنا ہوتا ہے۔کبھی بھی اپنے بچے کو دوسرے بچوں کے مقابلے میں کمی یا زیادتی کا احساس نہ ہونے دیں، تاکہ بچہ اپنے ساتھ پھلتے پھولتے ہم عمر بچوں کے ساتھ اخوت و مساوات قائم رکھ سکے۔ تندرست ذہن اور مثبت رویوں کی آبیاری کے لیے اپنے بچوں کو لعن طعن و جذباتیت کے بجائے تعریف و ہمت جیسی صفات سے روشناس کیا جائے،تاکہ اس کی ذہنی ترقی میں افزائش کا عمل پروان چڑھتا رہے۔ بچے کو گھر اور تعلیمی مراحل میں تمام عناصر کے درمیان رہتے ہوئےمثبت سرگرمیوں کی طرف رغبت دلانا بھی ایک مثبت پہلو ہے۔بہت سے والدین تنگی وقت یا مصروفیت کے سبب اپنے بچوں کو بلا ضرورت موبائل یا انٹرٹینمنٹ کا کوئی بھی آلہ ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔بہ ظاہر وقتی طور پر یہ غیرمانوس آلہ والدین کی ذہنی راحت کا سامان تو بن جاتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین کو لامتناہی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں بچے کی سخت مزاجی ،تن آسانی ، سستی و کاہلی کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی بیماریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق بچے کے ذہنی سکون کو تباہ کرنے میں موبائل کا بے جا استعمال سرفہرست ہے، جس سے بینائی کے مسائل کے ساتھ ساتھ بچوں کی اپنے والدین سے نامانوسیت ریکارڈ کی گئی ہے۔
ایامِ نوعمری میں بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے نفسیاتی تقاضوں کا خیال بھی از حد ضروری ہے، مثلاً بچوں کے لیے معمولی سی کامیابی پر بھی تعریفی الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ عمر کے اس حصے میں پرکشش اشیا کی طرف رغبت عمومی طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ لہٰذا انتہائی حکمت کے ساتھ فائدہ و استفادہ کو ملحوظ خاطر لاتے ہوئے بچے کو مطلوبہ چیز فراہم کی جائے۔اس عمر میں بچے عموماً لطف اندوز ہونے کے لیے مختلف مواقع کا انتظار انتہائی تجسس کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔والدین اپنے بچوں کو منع کرنے یا ڈانٹ ڈپٹ کے بجائےنرم رویہ رکھ کر حسب استطاعت پُررونق ماحول مہیا کر سکتے ہیں، جب کہ بچوں کو بار بار روک ٹوک کے بجائے کسی بھی غیرفطرتی یا معیوب فعل سے دور رکھنے کے لیے ایک بہترین نسخہ یہ ہے کہ بچوں کی ذہنی و جسمانی دلچسپی کا زاویہ کسی دوسری پُرکشش چیز کی طرف موڑا جائے۔ اس عمر میں عموماً بچے معاشرتی تعلقات کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لہٰذا گھر کے افراد کو بچوں کے ساتھ میلان و اُنسیت کو پروان چڑھانے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
بچپن سے لڑکپن کی عمر پروان چڑھتے ہی ذہنی و جسمانی افزائش کے مثبت یا منفی اثرات ”بلوغت“ میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔بچوں کو نفسیاتی مسائل سے دور رکھنا، والدین کے اہم اہداف میں شامل ہونا چاہیے، تاکہ نوجوانی کی عمر گزرنے تک اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی ہوتو بلوغت کے پہلے سالوں میں یہ کمی پوری ہو جائے۔عمومی طور پر اس عمر میں کسی بھی نوجوان کو بہترین روزگار،خوب صورت ازدواجی زندگی کے ساتھ ساتھ اہم مقام و مرتبے کی چاہت ہوتی ہے، لیکن عمومی مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ عملی زندگی میں اس نوجوان کو وہی ملتا ہے جو اس نے اپنے والدین،معاشرہ اور سماج سے تعلیم و تربیت کے بعد تجربات و مشاہدات سے اخذ کیا ہوتا ہے۔
اولاد کی بہترین ذہنی بڑھوتری اور صحت مند عملی سرگرمیوں کو قائم رکھنے کے لیے درج ذیل عوامل کا خیال بے حد ضروری ہے۔
1۔اپنے بچوں کو روشن خیالی کے نام پر مغربی افکار و کلچر سے دور رکھتے ہوئےوسیع النظری کا درس دیں، تاکہ وہ مشرقی روایات کو اپنائیں۔
2۔بچوں کی بہترین تربیت کے لیے گھر کے بہتر ماحول کے ساتھ بیرونی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں، جن میں بچے کی مجالس و محافل پر کڑی نظر رکھی جائے۔
3۔دین اسلام ہمارے لیے بہترین ضابطہ حیات ہے۔اس سلسلے میں بچے کے دل میں خشیتِ الہی قائم رکھنے اور اصلاح احوال کے لیے صحبت صالح کا اہتمام کیا جائے۔ نیک، صالح اور باعمل علمائے کرام کی محفلوں میں وقتاً فوقتاً شرکت کرکے روحانی ترقی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا قولِ مبارک اس بابت ہمارے لیے بہترین مشعلِ راہ ہے:
”نیک و بد ہم نشیں اور دوست کی مثال اسی طرح ہے، جیسے مُشک والا اور بھٹی پھونکنے والا“(رواہ مسلم) یعنی مُشک والے کے ساتھ دوستی و صحبت رکھتے ہوئے آپ خوش بو خریدو یا نہ خریدو، لیکن آپ کو خوش بو ضرور سونگھنے کو میسر ہوگی، جب کہ بھٹی پھونکنے والے کی صحبت سے نہ صرف آپ کے لباس کے جلنے کا اندیشہ ہے، بلکہ بدبو و گرد بھی آپ کا مقدر ٹھہرے گی۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم بچپن سے لڑکپن تک جس ماحول میں بھی رہتے ہیں، اس کا اثر ہماری عملی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
4۔بچوں کو پراعتماد بنانے کے لیے ان کے ساتھ ذہنی و فکری ہم آہنگی رکھی جائے، تاکہ ترجیحات کے تعین میں بچے اکیلا پن محسوس نہ کریں اور بہترین مستقبل بچے کو کامیابی کی نوید سنائے۔
5۔بچے کو شعوری طور پر نفع و نقصان کی درست پہچان سکھانا بھی والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، تاکہ وہ ایک بہترین شہری ثابت ہو سکے۔ایک پڑھا لکھا اور باشعور نوجوان نہ صرف اپنے خاندان کے لیے مسیحا ثابت ہوتا ہے، بلکہ معاشرے کے لیے بھی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنتا ہے۔