اجتماعی نقطۂ نظر کی ضرورت واہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اجتماعی نقطۂ نظر کی ضرورت واہمیت

    By faridoon khan Published on Aug 17, 2020 Views 3330
     اجتماعی نقطۂ نظر کی ضرورت واہمیت 
    تحریر : فریدون خان، مردان 

    وطن عزیز میں جس فکروعمل کو رواج دیاگیاہے وہ اجتماعی کے بجائے انفرادی نقطۂ نگاہ ہے۔ 
    " کوئی شخص  کسی پارٹی یا شخصیت سے وابستہ ہے اور وہ اس حد تک جا چکا ہے کہ وہ اپنی پارٹی یا لیڈر کو دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ محب وطن ، عوام دوست اور آواز حق سمجھتا ہے حالانکہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ سب سے زیادہ غدار وطن ، عوام دشمن اور حق کی آواز دبانے والا ہو ۔ لیکن اس کا یہ پیروکار بغیر عقل وشعور کے اس کا ہر حال میں دفاع کرتا ہے۔یہ طرز عمل انفرادی اور" شخصیت پرستی" کا ہے " ۔
    پرستی کا لفظ جس کا فارسی میں معنی " پوجا " ہے ، صرف اللہ کےلیے خاص ہے ۔خدا پرستی جس کا مطلب ہے کہ صرف  اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جاٸے ۔ خدا تعالی جس چیز کو حرام ٹہراٸے وہ حرام اور جس چیز کو حلال کہے وہ حلال ہے ۔
     " کوٸی بھی پارٹی یا شخصیت حرام اور حلال کا تعین نہیں کر سکتی " ۔
     اللہ نے قرآن کی شکل میں جو آفاقی قوانین ، زندگی گذارنے کے لیے بھیجے ہیں ، انہیں کے مطابق زندگی گزاری جائے ۔ کسی پارٹی یا شخصیت کے خود ساختہ قوانین قابل قبول نہیں ہیں ۔ 
    اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑے مدبر ہیں ۔ کاٸنات اور انسانی معاشروں کی تشکیل کے لیے وحی الہٰی کی صورت میں اصول دینے  اور تدبیر کرنے والے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہیں ۔ انسان اس تدبیر الٰہی کو لاگو کرنے کے لیے خلیفہ اور منتظم ہے ۔ 
    قرآن مجید میں ارشاد ہے ؛
    انی جاعل فی الارض خلیفۃ ط 
    میں زمین میں حاکم بنانے والا ہوں 
    شخصیت پرستی کاسبب.
     بر عظیم ہند میں انگریز کا مسلط نوآبادیاتی نظام اور اس سے وابستہ جاگیرداری و سرمایہ داری نظام اس سوچ کوسینچتا ہے ۔ انگریز نے موجودہ سسٹم ہندوستان کی اقوام کو کنٹرول کرنے اور انہیں غلام بنانے کے لیے بنایا تھا ۔ 1947ء میں نام کی آزادی کے بعد وہی ظلم و استحصال پر مبنی نظام ، ہم نے من و عن قبول کرکے عوام کی غلامی میں مزید اضافہ کر دیا ۔ 
    شخصیت پرستی کو فروغ 
    شخصیت پرستی کو پروموٹ کرنے کے لیے انگریز سامراج نے ہندوستانی اجتماعی فکر کو ختم کرکے انفرادیت میں بدل دیا ۔ جس کے نتیجے میں پھر اس نے نظام تعلیم بدلا ، تاریخ بدلی ، سیاست و معیشت سب کچھ بدلا ۔ خاص کر تاریخ میں گڑ بڑ کرکے نظریہ تاریخ کو ہی الٹا کردیا ۔ آج تک ہندوستان میں نظریہ تاریخ اجتماعی تھا لیکن انگریز نے آکر تاریخ کو انفرادی نقطہ نظر پر لکھوانا شروع کردیا ۔ 
     تاریخ کے مطالعے میں انفرادی نقطہ نظر کا مطلب 
     تاریخ کے مطالعے میں انفرادی نقطہ نظر کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی انقلابات آٸے ہیں وہ حادثاتی یا اتفاقی تھے ۔ اچانک ایک شخصیت پیدا ہوئی اور اس نے سب کچھ اکیلے بدل دیا ۔ 
    مطالعہ تاریخ میں انفرادی نقطہ نظر ؛  تحقیقی تناظر میں
     مؤرخین نے ایسی شخصیت ( بادشاہ و حکمران وغیرہ ) کے انفرادی حیثیت میں ، شماٸل و خصاٸل  لکھنے شروع کردیے اور اجتماعیت نظر انداز ہو گئی ۔
    یہ نظریہ انسانی فطرت و عقل اور انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخی جدوجہد کے خلاف ہے ۔
     1 - انسانی فطرت کے اندر الله تعالیٰ نے جدوجہد کا مادہ رکھا ہے کہ دنیا میں کوٸی بھی کام حادثاتی یا ڈرامائی طور پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے جدوجہد اور پلاننگ کرنی پڑتی ہے ۔
     اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں : 
     ا - سورۃ البلد میں ہے ؛ 
    لقد خلقنا الانسان فی کبد 
     تحقیق ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے 
    ب - سورۃ النجم میں ہے ؛ 
    و ان لیس للانسان الا ما سعی 
    انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی ۔ 
    ج - سورۃ الرعد میں ہے
     " بےشک اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہیں بدلتی "۔
    2 - انسانی عقل بھی تاریخ کے انفرادی نقطہ نظر کے خلاف ہے کہ بغیر کسی سبب کے دنیا میں کچھ واقع نہیں ہوتا ۔
    3 - انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخ بھی اس انفرادی نظریے کے خلاف ہے انہوں نے اپنے وقت کے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جو جدوجہد کی وہ انفرادی عمل نہیں تھا بلکہ انہوں نے باقاعدہ ایک نظریہ پیش کیا ، اس پر اپنے دور کے نوجوانوں کی تربیت کی اور اس طرح تربیت یافتہ جماعت کے ذریعے سے فاسد نظام چیلنج ہوئے۔
     قرآن کریم میں اس حوالے سے راہنمائی موجود ہے : 
    ا -  موسی ؏ پر ان کی قوم کے نوجوانوں کے علاوہ ، فرعون اور اس کی کابینہ کے خوف کے سبب کوئی بھی ایمان نہیں لایا ۔ 
    ب - اصحاب کھف کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے ۔ 
    ج - حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین حضرت یوشع کا ذکر نوجوان ہونے کے حوالے سے کرایا گیا ۔
    د - عیسی؏کی جماعت کو حواریین کہا گیا اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جماعت  صحابہ کرامؓ کو و الذین معہ سے ذکر کیا گیا ۔ 
    مندرجہ بالا دلائل و شواہد سے ثابت ہوا کہ تاریخ کا انفرادی نقطہ نظر بلکل غلط ہے ۔ یہ انسانی فطرت و عقل اور انبیاء کرام کی اجتماعی جد وجہد کے خلاف ہے لیکن انگریز سامراج نے اس اجتماعی نظریے کو تبدیل کرکے شخصیت پرستی میں ضم کردیا اور آج تک یہ انفرادی نظریہ ہمارے نظام تعلیم ، اور کتب تاریخ میں کار فرما ہے ۔ ڈراموں اور فلموں کے ذریعے بطور خاص اس سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ ہالی وُڈ کی کسی بھی فلم یاکسی ڈرامے کو آپ دیکھیں تو ان میں براٸیوں کے خاتمے کے لیے ایک ہیرو نمودار ہوتا ہے اور ساری براٸیوں کو اکیلے ہی ختم کردیتا ہے نہ کوٸی سوچ ، نہ کوٸی فکر ، نہ کوٸی تربیت اور نہ ہی کوئی جماعت سازی صرف خیالی پلاؤ پکالو ، خوابوں کی دنیا میں رہو اور زمینی حقائق سے بے خبر رہو ۔ 
    ارطغرل ڈرامے سے انفرادی ذہن کا پھیلاؤ
     ارطغرل ڈرامے نے شخصیت پرستی کی خوب دھوم مچائی ہے ۔ ہمارے نوجوان اب ارطغرل جیسے ہیرو کے انتظار میں ہیں کہ وہ آئے اور پھر اس کے ساتھ مل کر تشدد کا بازار گرم کریں ۔ 
    انفرادی نقطہ نظر کے مذہبی حوالے سے منفی اثرات 
    اسی انفرادی نظریے کےزیر اثر آج مختلف مذہبی حوالوں سے ہمارے نوجوانوں کو  ان کو اجتماعی ذمہ داریوں کے شعور اور ان کی ادائیگی سے غافل کیا جاتا ہے۔
     قرآن اور اجتماعیت 
    قرآن شخصیت پرستی کو طاغوت سے تعبیر کرتا ہے اور اجتماعی عمل پر زور دیتا ہے ۔
    ا - سورۃ النحل میں ہے ؛ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت ( سرکش طاقت ) سے بچتے رہو ۔ 
    ب - ایک رسول کو دوسرے رسول پر فوقیت دینے سے قرآن کریم کی اس آیت کے ذریعے منع فرمایا گیا ۔ 
    ”ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوٸی فرق نہیں کرتے“ کیونکہ اس سے شخصیت پرستی جنم لیتی ہے ۔ 
    سورة الفتح میں حضورص کا ذکر فرد کے بجاٸے جماعت کے ساتھ آیا ہے۔ ارشاد ہے ” محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت “
    سورة الفاتحہ میں جس " صراط مستقیم " کی ہدایت کی گٸی ہے وہ شخصیت کا راستہ نہیں بلکہ انعام یافتہ جماعت کا ہے ۔ 
    ہمارا کردار 
    آٸیے وطن عزیز میں شخصیت پرستی یا خاص خاندانوں کی بنیاد پر کھڑی گروہیتوں کا انکار کریں اور قرآن حکیم کی اجتماعی تعلیمات کو اپنی زندگی کا مقصد بناٸیں ۔
    Share via Whatsapp