اختلافِ رائے کے آداب - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اختلافِ رائے کے آداب

    اختلاف ِ رائے کیسے کریں؟

    By محمد علی Published on Jul 11, 2025 Views 523
    اختلافِ رائے کے آداب
    تحریر: محمد علی۔ ڈیرہ اسماعیل خان 

    کسی بھی معاشرے کے زندہ رہنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ فکری جمود کا شکار نہ ہو،اس میں اختلافِ رائے،تنقید برائے اِصلاح،سوال اور مکالمہ چلتا رہے۔تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں وہی معاشرے آگے بڑھے جنھوں نے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ فکری ارتقا اور مکالمہ کو بھی راستہ دیا۔
    اس کے برعکس ایسا معاشرہ جہاں سوال،اختلافِ رائے اور مکالمے کا گلہ گھونٹ دیا جائے وہ اپنی مادی ترقی کے باوجود فکری طور پر ہیجان کا شکار ہوجاتا ہے۔
    اس لیےایسی فضا کو برقرار رکھنے،نواجوان اذہان کو فکری طور پر پراگندہ ہونے سے بچانے اور اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہونا لازمی ہے۔
    جہاں یہ عمل ذہنی و علمی ترقی کے لیے بہت خوش آئند ہے،وہیں اس کے ساتھ کچھ مسائل بھی ہیں،ہمارا معاشرہ فکری و مادی حوالے سے ایک زوال شدہ معاشرہ ہے،اس لیے یہاں سوال،اختلافِ رائے اور اصلاحی تنقید کرتے وقت اس سے جڑے اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔خصوصاً سوشل میڈیا نے فضا کو مزید آلودہ کر دیا ہے،اکثر اوقات بات ذاتیات،گالم گلوچ اور قتل مقاتلے تک چلی جاتی ہے۔اس لیے لازمی ہے کہ ہمیں اختلافِ رائے اور تنقید سے جڑے اخلاقی تقاضوں کا علم ہو۔
    ذیل میں کچھ اخلاقی تقاضوں کا ذکر ہے جو سوال،تنقید اور اختلافِ رائے کے لیے لازمی ہیں۔
    1۔ادب کے دائرے میں رہنا:
    اختلافِ رائے یا سوال کے لیے سب سے پہلا تقاضا ادب ہے،آپ کا سوال یا تنقید ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو،اس میں گالم گلوچ،طنز،استہزا یا ذاتیات کا پہلو نہ ہو۔
    2۔دلیل پر مبنی گفتگو کرنا:
    جب بھی اختلاف یا تنقید کریں تو وہ ٹھوس دلیل پر مبنی ہو،اس کے ساتھ حوالہ دیا گیا ہو۔سنی سنائی بات پہ اختلاف یا تنقید بعد میں شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔
    3۔محل نزاع پر مرکوز رہنا:
    کسی بھی معاملے پر بات کرتے ہوئے محل نزاع (Point of dispute) سے ہٹ جانا،مشکل کا باعث بن سکتا ہے،جس سے بحث کو سمیٹنا مشکل ہوجائے گا اور دوسرا،بحث کا رخ کسی اور سمت چلا جائے گا۔
    4۔مختصر جامع اور سلیس انداز:
    کسی بھی مکالمے،سوال یا تنقید کو بے جا طوالت دینا اور گفتگو میں مشکل الفاظ کا استعمال کرنا سننے والے کو بوریت کا شکار کرسکتا ہے۔اس لیے جامع،مختصر اور سلیس انداز میں گفتگو کی جائے جو سننے والے کے فہم کے مطابق ہو۔
    5۔جان بوجھ کر غلط تشریح سے اجتناب کرنا:
    اسے انگریزی میں'Straw man fallacy' کہتے ہیں، آسان الفاظ میں یہ کہ آپ مخالف کے اصل آرگومنٹ کی جان بوجھ کر غلط تشریح کریں اور اس سے مخالف کے آرگومنٹ کو رد کرنے کی کوشش کریں۔یہ طرزِعمل غلط ہے،مثال کے طور پر کوئی کہے کہ"عوامی ٹرانسپورٹ پر زیادہ خرچ کرنا چاہیے"۔اس آرگومنٹ کی غلط تشریح یا Straw man fallacy یہ ہو گی کہ آپ کہیں"آپ کا مطلب ہے سٹرک سے کاریں اور جیپیں ہٹا لی جائیں اور لوگوں کو بَسوں میں ذلیل کیا جائے۔" گفتگو میں یہ عمل غیرمنطقی اور علمی خیانت ہے۔اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔
    6۔جیتنے کے بجائے سیکھنے کا رویہ رکھنا:
    کسی بھی مکالمے،سوال یا اختلافِ رائے کا مقصد سیکھنا ہونا چاہیے نہ کہ سامنے والے کو ہرانا،اسے نیچا دکھانا اور جیت کر اپنی انا کی تسکین کرنا،یہ بالکل غیرعلمی رویہ ہے،صاحبانِ علم ہمیشہ سیکھنے والے ہوتے ہیں نہ کہ جیتنے والے۔
    7۔دلیل کو قبول کرنا:
    اگر مخالف مکالمے کے دوران آپ کو مضبوط دلیل پیش کرے اور آپ کی دلیل اس کے مقابلے میں کمزور ہو تو مخالف کی دلیل کو تسلیم کرنا چاہیے۔ہٹ دھرمی کا رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔
    8۔فضول اور طویل بحث سے خروج کر لینا:
    اگر سامنے والا دلیل کے باوجود بھی قائل نہیں ہورہا ہو اور خوا مخواہ بحث کو طوالت دیتا چلا جا رہا ہے،تو آپ اس بحث سے نکل جائیں،اس پر مزید توانائی ضائع مت کریں۔
    9۔مشترکات اور اختلاف کو مکالمے سے پہلے تحریر کرنا:
    مکالمے سے پہلے اگر لکھ کر یہ بات طے کردی جائے کہ اس اس بات پر ہم متفق ہیں اور اس اس بات پر اختلاف ہے،لہذا ہم مکالمے سے اختلاف کو طے کرنے کی کوشش کریں گے۔اس کا یہ فائدہ ہے کہ آپ ایک ہی نقطے پر مرکوز رہیں گےاور مخالف اپنا دعویٰ بھی تبدیل نہیں کر پائے گا۔کیوں کہ اکثر جب لوگ اپنے دعویٰ کے حق میں دلیل پیش نہیں کر پاتے تو وہ دعویٰ ہی تبدیل کر دیتے ہیں،لہذا تحریری طور پر پابند کرنا، انھیں ایسا کرنے سے روک دے گا۔
    10۔دعویٰ کے حق میں دلیل ہونا:
    یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دلیل دعویٰ کرنے والے کے ذمے ہوتی ہے،لہذا تب تک کوئی دعویٰ نہ کریں جب تک اس کے حق میں دلیل نہ ہو۔
    11۔عجلت و جلد بازی سے پرہیز کرنا:
     اختلافِ رائے اور تنقید سے پہلے معاملے کے بارے چھان بین اور تسلی کر لینا لازمی ہے،بلاتحقیق اور جلد بازی میں دی گئی رائے آپ کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔
    اگر اختلافِ رائے،تنقید اور مکالمے میں ان پہلوؤں اور اخلاقی تقاضوں کو سامنے رکھا جائے تو،مکالمہ مثبت نتائج پر مبنی،تعمیری اور سیکھنے سے بھر پور ہو گا۔ بہ صورتِ دیگر وہ مجادلے کی شکل اختیار کر لے گا۔
    Share via Whatsapp