اجتماعی اخلاق کا تعارف اور تقاضے
بدقسمتی سے آج مسلم معاشرے ہر قسم کی اخلاقی برائیوں میں دھنس چکے ہیں اور طہارت سے کوسوں دور ہیں ۔
اجتماعی اخلاق کا تعارف اور تقاضے
تحریر: ملک ارسلان جاوید گوندل۔ ڈیرہ اسماعیل خان
انسانی فطرت پہ گہری نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان محض مادیت پہ اکتفا کرکے زندگی کے لوازمات کی تکمیل نہیں کرسکتا، بلکہ کچھ اور عوامل بھی ہوتے ہیں جو زندگی کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں اس کی خرابی کا باعث بنتے ہیں، وہ روحانیت کے امور و عوامل ہیں، جن کے تقاضے پورے کرنے کی وَجہ سے انسان کی زندگی جامع بن جاتی ہے، اسی وَجہ سے انسان معاشرے کے اجتماعی تقاضوں کو اپنی فطرت کی آواز سمجھ کر ان کی تکمیل کے لیے ہر قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(4)
یعنی جتنی بھی تخلیقات ہوئی ہیں ان سب میں اعلیٰ ترین تخلیق انسان کی ہے۔ اَب غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہم کس چیز میں اعلیٰ ہیں؟ کیا کسی اور جان دار کے بھوک و پیاس کے تقاضے نہیں ہیں یا ان کے مکان و زمان کے تقاضے نہیں ہیں؟ یہ سب چیزیں تو تمام جان داروں میں مشترک ہیں۔ اگر ایک پودے کو بھی مناسب مقدار میں پانی اور دیگر مطلوبہ نمکیات نہ ملیں، مناسب معیار کی دھوپ نہ ملے تو اس کی نشو و نما نہیں ہوگی، بالکل اسی طرح جس طرح بنی نوع انسان کی طبعی ضروریات پوری نہ ہوں تو اس کی نشو و نما نہیں ہوتی۔
تو توجہ طلب سوال یہ ہے کہ انسان اور دیگر مخلوقات میں کیا فرق ہے؟
حیاتیاتی طور پر دیکھا جائے تو انسان باقی جان داروں سے دماغ میں ممتاز ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جہاں اجتماعی شعور کا احساس پایا جاتا ہے وہ باقی جان داروں میں ناپید ہے۔ باقی جانور بھی جھنڈ یا اجتماع کی شکل میں رہتے ہیں،مگر ان کا وہ اجتماع صرف اپنے جتھے تک محدود ہوتا ہے، جیساکہ بھیڑیوں کا گروہ اور وہ بھی محض اپنے گروہی مفادات کے تحت زندگی گزارتے ہیں مگر انسان کو یہ امتیازی وصف عطا کی گئی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی طرح کے انسان، بلکہ اس زمین پہ موجود تمام مخلوقات (جمادات،نباتات،حیوانات ) کا محافظ و معاون اور اس کو ترقی دینے والا ہے۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ "آپﷺ کے اخلاق کیا ہیں؟ آپؓ نے فرمایا "کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟" جو کچھ قرآن میں ہے، وہ آپﷺ کے اخلاق ہیں۔ یعنی قرآن پاک کی عملی تفسیر آپﷺ کی حیات مبارکہ ہے اور وہی ہمارے لیے سب سے بہترین اُسوہ ہے، جس کی پیروی ہم پر فرض ہے۔
اس امر کو امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اخلاق اربعہ کے ذریعے سے واضح کرتے ہیں۔ شاہ صاحبؒ کی تعلیمات کے مطابق انسانی فطرت چار بنیادی اخلاق پر مشتمل ہے۔
پہلا: طہارت،یعنی بدن اور روح کی پاکیزگی سے لے کر معاشرتی پاکیزگی تک کا سفر۔
دوسرا: اخبات، یعنی تعلق مع اللہ،انسانی فطرت کا تقاضا ہےکہ انسان اپنے سے اوپر کسی ذات کی حکمرانی تسلیم کرے اور وہ اس ذات کو مکمل اور جامع مانے۔
تیسرا: سماحت، یعنی حیوانیت کو ضبط میں لانا، اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا اور اسے عقلی تقاضوں کے تابع کرنا۔
چوتھا: عدالت، سب سے آخری اور مرکزی خلق عدالت ہے، یعنی عدل اجتماعی۔
شاہ صاحب کے افکار کی روشنی میں اگر مذکورہ بالا تینوں خلق چوتھے خلق یعنی عدل کے تابع ہوں تو وہ انسان یا کل انسانیت ایک مکمل انسانی سوسائٹی بن جاتی ہے۔
اَب اگر اسی تناظر میں ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنے معاشرے میں اِنفرادی اور اجتماعی سطح پر کہیں بھی کسی ایک خلق کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن دنیا میں سب سے زیادہ بددیانتی،کرپشن،چوری اور دھوکہ دہی مسلم معاشروں میں ہے۔
الغرض! جس برائی کا تذکرہ کیا جائے وہ مسلم معاشروں میں بدرجہ اتم موجود ہے اور ہر آئے دن کے ساتھ یہ بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں اور تو اور سود جسے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے جنگ قرار دیا ہے، وہی سود مسلم معاشروں میں، جسم انسانی میں خون کی گردش کی طرح، رواں ہے، جو کہ آج سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں مسلم ممالک پر مسلط ہے۔ اگر اجتماعی شعور کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان تمام برائیوں اور اجتماعی اخلاق کی گراوٹ کی وَجہ یہی انسانیت دشمن سرمایہ دارانہ منحوس نظام ہے۔
ایک وہ وقت تھا کہ دنیا میں مسلمان تاجروں کی ایمان داری کے قصے سنائے جاتے تھے اور دنیا کے اکثر حصوں بہ شمول برعظیم پاک و ہند میں اسلام کے عادلانہ نظام کی داغ بیل ڈالنے والے یہی مسلم تاجر اور ان کا اخلاق تھا۔اعلیٰ اخلاق پر مشتمل اجتماعی نظام عدل قائم و غالب تھا۔ سماجی ترقی اور فلاح کا معاشرہ قائم تھا اور اقوام عالم اسلام کے عادلانہ نظام کی چھتری میں ہر پہلو سے مطمئن اور ترقی پذیر تھیں۔ لیکن آج اس کے بالکل برعکس معاملہ ہے۔
یہ سب تب سے شروع ہوا، جب ہم سے اپنے اجتماعی اخلاق بنانے والا نظام عدل چھینا گیا اور دورِغلامی شروع ہوا۔ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی، پھر ملکہ برطانیہ کی براہِ راست غلامی اور آج تک نوآبادیاتی دور کی مسلط غلامی کا ہم شکار ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ یورپ سے درآمد شدہ فلاسفرز کو ہم نے اپنا امام بنا لیا ہے۔ہم نے سیاست میں میکاولی، معیشت میں ایڈم سمتھ، سماجیات اور تعلیم میں تھامس لارڈمیکالے کو اپنا امام بنا لیا ہے۔ اسلام کو مسجد تک محدود کردیا اور سماج میں اسلام کی جگہ سرمایہ داریت کو جگہ دے دی ہے۔
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر ۔۔۔۔۔۔۔
کا مصداق ہوگئے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ملک کا نوجوان دین اسلام کو بہ طور نظام سمجھے۔اس کا فہم و ادراک حاصل کرے۔نظام سرمایہ داریت کو بدلنے اور قرآن حکیم کے عادلانہ اجتماعی نظام کے قیام کے جدوجہد کرے اور اس کے لیے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے، جن کے بارے میں قرآن حکیم کہتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
یہ سچے لوگ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں اور کل انسانیت کی فلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند میں ان علمائےحق اور آزادی پسندوں کا ایک تاریخی تسلسل ہے جو برعظیم کے سب سے بڑے حکیم امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے وابستہ ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ ہی وہ مفکر ہیں، جن کی فکر میں قرآن و حدیث اور اجماع صحابہ رضوان اللہ علیہم کے تناظر میں آج کے دور کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ ادارہ رحیمیہ علوم قرانیہ ٹرسٹ لاہور، ولی اللہی علوم ومعارف کو آج کے دور کے نوجوانوں میں منتقل کرنے میں مشغول ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اس سے وابستہ ہونا چاہیے، تاکہ سسٹم کو چلانے کے لیے جماعت حقہ تیار ہوسکے۔