عبادات کے اجتماعی اور سماجی اثرات ونتائج - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عبادات کے اجتماعی اور سماجی اثرات ونتائج

    ہمیں اکثر احساس رہتا ہے کہ ہماری عبادت میں وہ خشوع و خضوع نہیں جو ہونا چاہییے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں شاید عبادات کے تقاضوں سے ناآشنا ہوتے ہیں۔

    By Shahzad Mehmood Badar Published on Aug 21, 2019 Views 6437

    عبادات کے اجتماعی اور سماجی اثرات ونتائج 

    تحریر: شہزاد بدر، امریکہ

     

    ہمیں اکثر یہ احساس رہتا ہے کہ ہماری عبادت میں وہ خشوع و خضوع نہیں جو ہونا چاہییے۔ اور بسا اوقات نماز میں ہماری حاضری بھی رسمی اور واجبی سی ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں شاید عبادات کے اصل مقصد ، اہمیت اور تقاضوں کا علم ہی نہیں۔نماز ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں ہمارا رابطہ براہ راست اپنے مالک سے ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کی نمازیں ایک رسم کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ ہم دراصل ایک فرض کا بوجھ اتار رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ہمیں اپنے اخروی کھاتے میں مزید نیکیوں کا اضافہ کی تمنا ہوتی ہے۔ نماز ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے اس پر ہم نے کم ہی غور کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم عبادات کی اصل روح اور تقاضوں سے نا آشنا ہیں۔

    دراصل ہم تو ابھی تک اپنی تخلیق کے مقصد سے ہی واقف نہیں ہیں۔ چہ جائیکہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم عبادات کیوں کر رہے ہیں۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر عبادات کا اصل مفہوم اور مقصد ہم پر واضح ہو جائے تو عبادات کا لطف ہی اور ہو گا۔

    نماز عبادات میں سب سے اہم مقام رکھتی ہے ۔امام شاہ ولی اللہ دہلوی رح نماز کو تجلی الہی قرار دیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نماز کے چار فرض پورے ہو جاتے ہیں اور پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب سجدہ کیا، کون سی سورت پڑھی۔ بس سلام پھیرا، رسمی دعا کی اور یہ جا وہ جا۔اللہ تعالی عبادات کے ذریعہ اس جماعت کی تربیت کرنا چاہتے ہیں جس کو انسانیت کی چوکیداری کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اتنی بڑی ذمہ داری ہے تو تربیت بھی ویسی سخت ہونی چاہیے۔ دن میں پانچ بار تو لازمی ہے کہ اس حاکم کے ساتھ میٹنگ کی جائے۔ اور اجتماعی میٹنگ میں اقرار کیا جائے کہ ہم مساوات اور نظم و ضبط کا جو مظاہرہ با جماعت نماز میں کر رہے ہیں۔ معاشرہ میں بھی ایسے ہی مساوات قائم کریں گے۔ معاشرے میں ایسے ہی ایک منظم اور متحد سوسائٹی کے طور پر کام کریں گے۔ جس طرح نماز میں اجتماعیت کا اظہار کر رہے ہیں اسی طرح معاشرے میں ٹیم ورک کے ذریعے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔اور سب سے بڑی ذمہ داری تو عدل کا قیام ہے۔

    ہم میں سے بہت سے لوگ روزانہ آفس میں میٹنگ کرتے ہیں اور اس میٹنگ میں ان کی شمولیت جسمانی اور ذہنی دونوں لحاظ سے ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو اگر ایسا نہیں کریں گے تو یا تو نوکری کا خطرہ ہے یا سالانہ رپورٹ متاثر ہو سکتی ہے اور یہ پروفیشنلزم کے بھی خلاف ہے۔ تو جو رب ہماری زندگی کا مالک ہے جو دنیا جہاں کی دولت و ثروت جس کی ہے اس سے ملاقات کرتے ہوئے ہم کیوں ذہنی طور پر حاضر نہیں رہتے۔ اگر ہم اس نماز کو احکم الحاکمین سے اپنی ملاقات سمجھ لیں تو ہمیں تو الرٹ ہونا چاہیے اور دو نمازوں کے درمیان کیے گئے کام کی رپورٹ پیش کرنی ہے۔ خود احتسابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگنی ہے اور جذبے کے ساتھ یہ عزم کرنا ہے کہ اے اللہ میں اب اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاؤں گا۔ 

    حضرت امام عبید اللہ سندھی رح فرماتے ہیں کہ رکوع دراصل ذمہ داری کو قبول کرنے کا اظہار ہے اور سجدہ اس بات کا اقرار ہے کہ میں اللہ تعالی کی بڑائی کا اعتراف کرتا ہوں۔

    نماز تو ایسا عمل ہے کہ ہم اپنے سب سے بڑے مالک سے رابطہ کرتے ہیں ۔ براہ راست اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں۔ اور اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ غلطیوں پر معافی چاہتے ہیں اور آئندہ کے لیے رہنمائی۔

    ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ مسلمان ایک ذمہ داری کا نام ہے۔ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو ہم دل اور زبان سے یہ اقرار باندھتے ہیں کہ ہم معاشرے میں غیر اللہ کا نظام قبول نہیں کریں گے اور اللہ تعالی کی مخلوق سے محبت کریں گے۔ حضرت امام عبید اللہ سندھی رح فرماتے ہیں کہ خدا پرستی کا لازمی نتیجہ انسان دوستی ہے۔اگر ہماری عبادت کے بعد ہمارے اندرمخلوق کے لیے درد پیدا نہیں ہوتا تو ہماری عبادت میں کچھ کمی ہے۔ اسی بات کی نشان دہی سورۃ ماعون میں کی گئی ہے۔اور اللہ کی مخلوق سے محبت کا بہتریں اظہار یہ ہے کہ اس کی مشکلوں کا کوئی دیرپا اور بہتر حل کیا جائے۔ لوگوں کو معاشی ، سیاسی اور معاشرتی ظلم سے نجات دلائی جائے۔

    اب یہ ذمہ داری کس کی ہے ۔ اس جماعت کی، جس نے کلمہ طیبہ کے نظریہ کو قبول کیا ہے۔اب اس نظریہ سے اگر ہم قیام کریں گے تو ہم رب کے سامنے خود کو جواب دہ سمجھیں گے اور سورۃ فاتحہ میں کی گئی دعا پر غور کریں گے ۔اس سے متصلہ سورت کے مفہوم کے مطابق حکمت عملی سوچیں گے کہ کس طرح اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ رکوع میں گئے تو اپنے رب کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو نبھانے کا عزم کریں گے۔ سجدے میں جا کر ماتھا رگڑ کر اقرار کریں گے کہ ہماری تو کوئی اوقات نہیں سب سے بڑا تو میرا رب تُو ہے اور ہم تیرے سوا کسی کی ملکیت، ربوبیت اور الوہیت قبول نہیں کر سکتے۔

    جب ایسے جذبے اور لگن سے نماز ادا کی جائے تو یقین مانییے اس کا لطف ہی عجیب ہو گا، بار بار دل چاہے گا کہ اپنے رب سے ملا قات کروں ، ذمہ داری کا مظاہرہ کروں اور خود کو ایک اچھا بندہ ثابت کروں ۔یہ بات تو طے ہے کہ جب اتنے خزانوں کے مالک اور سارے جہاں کے پروردگار کے سامنے اس طرح پیش ہوں گے اور ذمہ دار بندہ بنیں گے تو انعام کا ملنا تو ایک یقنی امر ہے۔ لیکن ہمارے پیش نظر رب کی رضا، عبادات کا مقصد اور روح ہونی چاہیے۔ بونس اور انعام نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ساری عبادات کو اپنی روح کے ساتھ بجا لانے کی توفیق اور اپنی مرضیات نصیب فرمائے. آمین.

    Share via Whatsapp