کرونا وائرس کی وبا اور چین کے انقلابی اقدامات
معاشروں کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے حیلے بہانوں، الزام تراشی، ناقص روایات سے گریز کرتے ہوئے میدان عمل میں بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہیے.
کرونا وائرس کی وبا اور چین کے انقلابی اقدامات
تحریر: راؤ عبدالحمید، لاہور
کرونا وائرس کے بار ہے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، یہ انسانی نظام تنفس کو متأثر کرتا ہے اور انتہائی حالت میں پھیپھڑوں پر اثر انداز ہو کر سانس میں دشواری پیدا کرتا ہے جس سے متأثرہ فرد کی موت واقع ہوسکتی ہے۔
اس مرض کی اہم علامات کھانسی، زکام، تیز بخار، تھکاوٹ اور سانس کا تنگ ہونا ہے۔ مریض میں ان علامات کے اظہار میں 14 سے 24 دن کا دورانیہ ممکن ہو سکتا ہے۔
چین کے شہر ووہان میں اس وائرس کو پہلی دفعہ دسمبر 2019 میں ایک چینی ڈاکٹر نے دریافت کیا جو خود بھی اسی مرض کا شکار ہوا اور اس کی موت واقع ہوئی۔ابتدا میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس ووہان میں جانوروں کی گوشت کی منڈی سے پھیلا، اس منڈی میں کوئی 72 قسم کے جانوروں کا گوشت فروخت کیا جاتا ہے، شروع میں گمان تھا کہ اس کا پھیلاؤ چمگادڑ کے گوشت کھانے سے ہوا لیکن مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ اس کی اصل وجہ پینگولن نام کا جانور ہے۔ چین میں پینگولن کے گوشت کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے، ایک خبر کے مطابق انہی دنوں میں 50،000 پینگولن کا گوشت پکڑا گیا تھا۔ البتہ اس کی حقیقی وجوہات کی تلاش کے لیے مزید تحقیق جاری ہے۔
وائرس سے بچاؤ کی درج ذیل احتیاطی تدابیر تجویز کی جاتی ہیں
1. پر ہجوم جگہوں پر جانے سے گریز کیا جائے
2. گھر پر ہی ٹہرا جائے
3. ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھویا جائے
4. دن میں ایک مرتبہ رہائشی کمرے کی کھڑکیاں کھول کر ہوا لگوائی جائے.
5. روازانہ 15 منٹ کی جسمانی کسرت/ ورزش کی جائے
6. ٹھنڈے علاقے میں رہنے والے 15 منٹ دھوپ میں ضرور ٹھہریں
7. سبزی اور ترشادہ پھل زیادہ استعمال کریں
8. جسمانی مدافعتی نظام کو طاقتور رکھیں
9. باقاعدگی سے جسم کا درجہ حرارت چیک کرتے رہیں، اگر بخار ہوتو معائنہ کروائیں، صرف بخار اتارنے والی دوا پر اکتفا نہ کریں
یہ بیماری صوبہ Hubei کے شہر ووہان سے شروع ہوئی، یہ صوبہ تجارتی مرکز ہے۔اس کے اچانک پھیلنے کی وجہ چین کی سالانہ چھٹیاں تھیں، اسی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے یہاں سے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ 80 فیصد متأثرین صرف صوبہ Hubei سے تھے اور زیادہ تر Gungdong اور Henan صوبے کے متأثرین تھے.
یہ وائرس کم خطرناک ضرور ہے لیکن پھیلتا بہت تیزی سے ہے۔ جب یہ دریافت ہوا تو چین نے مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا،جس میں اس کا خاندان، قریبی لوگ اور سفری تفصیلات جیسی معلومات بھی شامل تھیں. یہ ڈیٹا بہت ہی کم وقت میں جمع کر لیا گیا کیونکہ چین میں دستاویزی معیشت(Documented Economy) ہے۔ ہر چیز آن لائن ہونے کی وجہ سے سفری تفصیلات بآسانی معلوم ہو گئیں۔ اس کے علاوہ مریضوں سے بھی زبانی معلومات لی گئیں۔
اس ڈیٹا کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کیا گیا
1. متأثرین
2. قریبی لوگ
3. مشتبہ لوگ
4. غیر واضح متأثرین
اس بنیاد پر علاقوں کی بھی تقسیم کی گئی
1. انتہائی خطرناک علاقے (High risk areas)
2. درمیانی نوعیت کے خطرناک علاقے (Medium Risk areas)
3. کم خطرناک علاقے (Low risk areas)
ان مقامات کے اعتبار سے منصوبہ بندی اور قانون سازی کی گئی۔ ووہان شہر کو انتہائی خطرے کا علاقہ قرار دیا گیا تھا، لہذا اسے مکمل بند کر دیا گیا۔شہری داخلی و خارجی راستوں کی کڑی نگرانی کی گئی اور لوگوں کے گھروں میں ٹہرے رہنے کو یقینی بنانے کےلیے سالانہ تعطیلات میں اضافہ بھی کردیا گیا۔ اس طرح سے وبا کے دوسرے شہروں میں منتقلی کے امکانات کو محدود تر کردیا گیا۔
اس عمل کو یقینی بنانے میں سب سے اہم کردار پولیس نے ادا کیا جس نے احتیاطی تدابیر اپنانے میں لوگوں کی مدد بھی کی اور کوتاہی پرجرمانے بھی عائد کیے۔ انٹرنیٹ کی سہولت پورے ملک میں موجود ہونے نیز 96 فیصد شرح خواندگی کی وجہ سے لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے سے احتیاطی تدابیر اپنانے پر مائل کرنے میں آسانی ہوئی۔
کیمونسٹ پارٹی نے قانون سازی کے ذریعے جنگلی جانوروں کو کھانے اور تجارت کو ممنوع قرار دے دیا ہے اور طے کیا ہے کہ لوگوں کی کھانے کی عادات بدلنے کی کوشش کی جائے گی اور اس بات پر مائل کیا جائے گا کہ خوراک میں صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھا جائے۔
چونکہ ابھی تک ویکسین انسانوں پر استعمال کے مرحلے تک نہیں پہنچی اس لیے ابھی صحت یاب ہونے والے مریضوں کے بلڈ پلازمہ سے اینٹی باڈیز لے کر علاج کیا جا رہا ہے۔ جس سے جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہو کر صحت یابی کو یقینی بناتا ہے۔
دنیا میں زندگی کے ہر شعبے میں سب سے زیادہ تحقیقی مقالے 2019 میں چین سے شایع کئے گئے۔ صحت کے شعبے میں چین کا کوئی ثانی نہیں۔ دنیا کے مقابلے میں سب سے بہترین طبی سہولیات سے آراستہ اور زیادہ ہسپتال چین میں ہیں۔ اسی لیے متأثرین کا علاج فوری شروع ہوگیا۔ مریضوں کی منتقلی کے معیاری نظام کی بدولت کسی بھی شخص میں مرض کی معمولی سی بھی علامات ظاہر ہونے سے اسے فوری طور پر سرکاری ایمبولینس کی مدد سے گھر سے ہسپتال منتقل کردیا جاتا۔
نئی اور وبائی بیماری کی وجہ سے پرانے ہسپتالوں کی بہ جائے نئے ہسپتال بنائے گئے تاکہ ان مریضوں سے مزید وبا نہ پھیلے۔ ایکسپو سینٹرز، جمانزیم اور خالی عمارتوں کو عارضی ہسپتالوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ووہان شہر میں دو ہفتوں میں 2500 بستروں کی گنجائش کے دو بڑے ہسپتال بنائے گئے۔ اسی طرح xianشہر میں بھی 1000 بستروں کا ہسپتال دس دنوں میں بنایا گیا۔ ایسے کئی ہسپتال کئی اور شہروں میں بھی بنائے گئے۔تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والی بڑی مشینری اور میٹیریلز بھی مقامی تیار کردہ ہیں ، جس کی وجہ سے نہایت تیز رفتاری سے اقدامات ممکن ہوسکے۔
چین طبی آلات کی تیاری اور برآمد میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔اس کو کوئی بھی چیز کسی اور ملک سے نہیں منگوانی پڑی۔مریضوں کو کھانا اور ادویات پہنچانے کے لیے روبوٹس کا استعمال کیا گیا تاکہ طبی عملہ کے متأثر ہونے کے امکانات کم سے کم ہو سکیں. 20 جنوری 2020 تک ہوبائے صوبہ میں متأثرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ 03 فروری تک Hubei کے علاوہ باقی صوبوں میں متأثرین کا گراف بڑھنا رک گیا۔ان مؤثر اقدامات کی بدولت 20 فروری تک Hubei میں بھی متأثرین کا گراف نیچے آنے لگا اور لوگ صحت یاب ہونے لگے۔
چائنہ میں لوکل انتظامیہ بہت مضبوط ہے۔ انتظامی ڈھانچے کو مرکزی، صوبائی، ضلعی اور کاؤنٹی کے درجات پر تقسیم کیا گیا ہے اور ہر سطح پر اہداف(صحت، تعلیم، کاروبار، ٹیکس کولیکشن اور اس کو کمیونٹی پر خرچ کا اختیار) اور اختیارات واضح ہیں. کوتاہی برتنے پر برطرفی یقینی ہوتی ہے. سیاسی شخصیات کی اپنی مشہوری کا کوئی تصور نہیں,لہذا اشتہار بازی اور محض افتتاحی تختیاں لگوانے کی روایت وجود نہیں رکھتیں۔
مرکزی حکومت نے کڑی نگرانی کی اور Hubei صوبے کے کیمونسٹ پارٹی سیکرٹری جو وزیر اعلیٰ کے برابر ہوتا، کو ہٹا کر زیادہ تجربہ کار پارٹی سیکرٹری مقرر کیا، اسی طرح ووہان شہر کے میئر کو بھی ذمہ داری سے کوتاہی برتنے پر تبدیل کر دیا گیا۔ ان ساری کوششوں سے کچھ ہی دنوں میں مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے۔ اس وائرس سے ہر جگہ متأثرین کا علاج مفت کیا گیا۔ مریضوں اور ان کے قریبی لوگوں کی سخت نگرانی کی گئی، بار بار معائنہ کیا گیا، ٹمپریچر گن ہر جگہ مہیا کی گئیں.سپرے، فری ماسک اور اس کے علاوہ احتیاطی تدابیر پر آنے والے تمام اخراجات لوکل گورنمنٹ نے برداشت کیے۔
اس ساری مہم میں ڈاکٹرز نے دن رات کام کیا جس کے اعزاز میں طبی عملے کو بونسز، اضافی تنخواہیں اور دیگر مراعات دی گئیں۔چائنہ نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے 17 ارب یووان (تقریباً پونے چار سو ارب روپے) صرف اس عارضی صورت سے نمٹنے کے لیے مختص کیے. 42000 طبی عملے کو باقی صوبوں سے ووہان بھیجا گیا۔کم وبیش 19 صوبوں سے 16 متأثرہ شہروں کو قومی مفاد کے لیے طبی عملہ اور وسائل بھیجے گئے۔ پورے چائنہ میں 13000 بستروں کے عارضی ہسپتال بنائے گئے۔ روزانہ ٹیسٹ کرنے کی استعداد کو 300 سے بڑھا کر 20000 کر لیا۔ 2.95ملین N95 ماسک، 1.93 ملین حفاظتی سامان صرف Hubei صوبہ کو مہیا کیا گیا۔
میڈیا کا کردار انتہائی ذمہ دارانہ رہا۔میڈیا نے سنسنی پھیلانے کی بجائے احتیاطی تدابیر اور معلوماتی پروگرام نشر کیے۔ مریضوں اور مرنے والوں کی تعداد کی تکرار کی بہ جائے سہولیات اور کام کرتے ہوئے عملے کو دکھا کر حوصلہ افزائی کےذریعے نہایت مثبت کردار ادا کیا۔
چین میں خبر صرف متعلقہ ادارے کے ترجمان ہی جاری کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے لوگ سکون میں رہتے ہیں اور افراتفری سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔دنیا کے میڈیا پر اس خبر کے باوجود کہ یہ وبا چائنہ پر بیالوجیکل حملہ ہے، اس خبر کو میڈیا نے نشر کیا اور نہ ہی حکومتی شخصیات نے اس پر تبصرہ کیا اور اپنےکام پر لگے رہے۔ جس کا نتیجہ بہت ہی مثبت نکلا، صرف 2 فیصد اموات ہوئیں۔
غیر ملکی طالب علم اور دیگر غیر ملکی شہریوں پر خصوصی توجہ دی گئی۔
ان اقدامات کی بدولت چین نےاس وائرس پر کنٹرول کرلیا۔آج ہزاروں ڈاکٹرز اپنامشن مکمل کرکے ووہان شہر سے اپنے اپنے شہروں کولوٹ گئے۔اس عظیم انسانی خدمت کے انجام دینے پہ لوگوں نے انہیں نہایت گرمجوشی سے رخصت کیا۔
چین کی اس وبا سے بچنے میں کامیابی کے پیچھے اس کی آزاد پالیسیاں اور خود مختاری ہے۔چین ہر شعبے میں خود کفیل ہے حتیٰ کہ گوگل کی جگہ Baiduسرچ انجن، فیسبک اور ٹوئیٹر کی جگہ Weiboاور واٹس ایپ کی جگہ Wechat استعمال کرتے ہیں۔اس وبا کے دنوں میں گوگل میپ کے مقابلے میں Baidu Map نے علاقوں کی نشاندہی کرکے لوگوں کو غیر ضروری سفر سے بچانے کی پوری پوری کوشش کی۔
چین کی آزادی، سیاسی خود مختاری اور آزاد معاشی پالیسی نے چین کو دنیا کی سرفہرست قوم بنا دیا ہے۔ہمیں بھی پاکستانی قوم کو ترقی دلانے اور آزاد قوموں کی فہرست میں لانےکے لیے چین کی سیاسی تاریخ سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔