سرمایہ دارانہ نظام میں مثبت سماجی رویوں کا فقدان اور اس کا حل
آج کے سرمایہ داری نظام میں اگرچہ ترقی کے پیمانے تبدیل ہو چکے ہیں، اور ہم مادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ لیکن انہی ترقیاتی اہداف نے انسانیت .....
سرمایہ دارانہ نظام میں مثبت سماجی رویوں کا
فقدان اور اس کا حل
تحریر: محمداصغر خان سورانی۔ بنوں
میرے والد صاحب اکثر بتاتے ہیں کہ اُن کے زمانے
میں مادی ترقی اتنی زیادہ نہیں تھی، لیکن زندگی کے اصول اور رویے نسبتاً زیادہ خوش
گوار اور انسان دوست تھے۔ لوگ سادہ زندگی گزارتے تھے، بڑوں کا احترام، والدین کا
کہنا ماننا، بہن بھائیوں میں محبت اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، عام سی بات
تھی۔ شادی بیاہ اور فوتیدگی جیسے مواقع پر پورا محلہ اور خاندان ایک دوسرے کی
خوشیوں اور دکھوں میں شریک ہوتا۔ آج کے سرمایہ داری نظام میں اگرچہ ترقی کے پیمانے
تبدیل ہو چکے ہیں اور ہم مادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکے ہیں، لیکن انھی ترقیاتی
اہداف نے انسانیت کو ایک دوسرا رخ دے دیا ہے، جس میں خودغرضی، مقابلہ بازی اور بے
حسی زیادہ ہے۔ہر کوئی اپنی دھن میں لگا ہے۔ بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ
نظام نے چند مخصوص طبقوں کو مادی ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچایا ہے، لیکن اس کے
ساتھ ساتھ انسانی رویوں اور معاشرتی اقدار پر منفی اَثرات بھی مرتب کیے ہیں۔
یہ نظام افراد کو دولت اور کامیابی کے حصول میں
مشغول کر دیتا ہے، جس کی وَجہ سے معاشرتی اور اخلاقی اقدار پس پشت چلی جاتی ہیں۔
نتیجتاً لوگوں کے رویوں میں خودغرضی، بے حسی اور دوسروں کی فلاح و بہبود سے متعلق
لاتعلقی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اور سماجی رویوں پر اس کے
اَثرات درج ذیل ہیں:
1۔ ذاتی مفادات کا فروغ:
سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی محور منافع اور
ذاتی فائدہ ہے۔ اس نظام میں ہر فرد اپنے ذاتی مفادات کو اولیت دیتا ہے، جس سے اجتماعی
بھلائی اور سماجی ذمہ داری جیسے تصورات کمزور پڑجاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں
انسان کو اپنے بھائیوں کے لیے بھلائی کی تلقین کی گئی ہے۔جیسے کہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا:
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت
تک مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ
اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"(صحیح بخاری)
2۔فضول خرچی اور مادی خواہشات کا غلبہ:
سرمایہ دارانہ معاشروں میں مادیت اور کثیر دولت
کو کامیاب زندگی کا معیار بنا دیا گیا ہے۔ اس سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ کمانے
اور خرچ کرنے کی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اکثر اوقات مختلف تقریبات میں فضول خرچی سے کام
لیا جاتا ہے ۔ قرآن مجید ہمیں قناعت اور سادگی کی تعلیم دیتا ہے اور فضول
خرچی کو شیطانی عمل قرار دیتا ہے:"بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی
ہیں۔" (سورۃ الاسراء: 27)۔ اس رویے کی وَجہ سے انسانوں میں اخلاص اور دوسروں
کا خیال رکھنے کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
3۔ خاندانی اور سماجی نظام کی کمزوری:
سرمایہ دارانہ نظام خاندانی تعلقات کو بھی
متاثر کرتا ہے۔ لوگ اپنی اِنفرادی زندگی میں مگن رہتے ہیں اور دوسرے لوگوں
سے ان کے تعلقات کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ جب کہ اسلامی تعلیمات میں خاندانی تعلقات
قائم رکھنے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ
سلوک کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور
تم اپنے قریبی رشتہ داروں اور مسکینوں اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔"
(سورۃ البقرہ: 177)
4۔ استحصال اور طبقاتی تفریق:
سرمایہ دارانہ نظام میں دولت اور وسائل پر چند
افراد کی اجارہ داری نے طبقاتی تفریق کو بڑھاوا دیا ہے،جس سے حسد اور نفرت جیسے
جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں دولت اور وسائل کی منصفانہ
تقسیم پر زور دیا گیا ہے، اور انفاق((خرچ کرنے) کی تعلیم دی گئی ہے۔ تاکہ معاشرے
میں توازن قائم رہے: جو کچھ اللہ نے تمھیں دیا ہے۔ اس میں سے خرچ کرو، (اللہ کی
راہ میں) (سورۃ الحدید: 7)
5۔ مسابقت اور تناؤ کا ماحول:
سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شخص دوسرے سے آگے
نکلنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس مسابقت سے ذہنی دَباؤ اور تناؤ پیدا ہوتا ہے،
جو خوش گوار اور دوستانہ رویوں کو متاثر کرتا ہے۔ اسلام ہمیں اعتدال اور سکون سے
زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اور بے جا دوڑ دھوپ سے منع کرتا ہے۔
سرمایہ درانہ نظام کی وَجہ
سے پیدا شدہ مسائل کے حل کے لیے فطری اصولوں پر مبنی ایک متبادل اور عادلانہ نظام
کا قیام ناگزیر ہے۔
دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں فطری اصولوں
پر مبنی عادلانہ نظام کے نفاذ کا مقصد مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانوں میں مثبت
رویوں مثلاً ہمدردی، محبت اور اجتماعی بھلائی کے جذبات کو فروغ دینا ہے، جس کی کمی
سرمایہ دارانہ نظام کی وَجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں خودغرضی، مسابقت
اور اِنفرادیت پسندی نے انسان کو اپنے مفادات میں اس حد تک مشغول کر دیا ہے کہ
معاشرتی تعلقات، ایثار اور اخلاقی قدریں متاثر ہو گئی ہیں۔ متبادل عادلانہ نظام کے
نفاذ سے اِنفرادی اور اجتماعی رویے کس طرح بہتر ہو سکتے ہیں؟ اس کی تفصیل درج ذیل
ہے۔
اسلام کےعادلانہ نظام کے قیام کے بعد دینی
تصورقناعت اور اعتدال کے تحت جب ہر فرد کو صرف اپنی ضروریات پر اکتفا کرنے اور
دوسروں کی بھلائی میں شامل ہونے کی ترغیب دی جائے گی تو لوگوں کے رویوں میں
خودغرضی اور مقابلہ بازی کے بجائے ایک دوسرے کے لیے اخلاص اور محبت کے جذبات پروان
چڑھیں گے۔ اسلام قناعت کو پسند کرتا ہے اور قرآن ہمیں اسراف سے بچنے کی تلقین کرتا
ہے، جس سے زندگی میں توازن اور سکون آتا ہے۔
عدل و انصاف پر مبنی نظام کی موجودگی میں جب ہر
فرد کو انصاف کے ساتھ اس کے حق کا حصہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں
ہوگی تو لوگوں میں نفرت، حسد اور انتقام کے جذبات کم ہوں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ
بھائی چارے اور ہم آہنگی کے جذبات فروغ پائیں گے۔ ایسے معاشرے میں فرد خود کو
محفوظ اور معزز محسوس کرے گا۔
خدمت خلق اور انفاق کا نظام
:
جب انفاقِ مال کا عمل معاشرت میں عام ہوگا اور
ہر فرد اپنی دولت میں سے ایک حصہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرے گا تو لوگ
دوسروں کی مدد اور تعاون کو اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔ خدمت خلق کے جذبات پروان
چڑھیں گے، جس سے ان کے رویے میں شفقت، ہمدردی اور قربانی کے عناصر شامل ہوں گے۔
سادگی اور فطرت پسندی کو فروغ دینے سے لوگوں کی
زندگی سے مادیت کا بے جا شوق اور فضول خرچی کا رجحان کم ہوگا، جس کے نتیجے میں
حسد، جلن اور مادی دوڑ کی جگہ انسانی قدروں کو فوقیت ملے گی۔ اس سے لوگوں کے رویے
میں سادگی، سکون اور عاجزی جیسے مثبت پہلو شامل ہوں گے، جو انھیں ایک دوسرے کے قریب
لائیں گے۔
تعلیم اور اخلاقی تربیت کے ذریعے جب فرد کو
معاشرت میں اپنے کردار کی اہمیت، انسانیت کی قدر اور دوسروں کے حقوق کا احساس ہوگا
اور وہ محض اپنی ذات تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی کام
کرے گا۔
طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے
اقدامات:
جب معاشرت میں نظام عدل کے تحت یکساں مواقع اور
بنیادی ضروریات کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا تو معاشرت میں مایوسی،
بداعتمادی اور حسد کے منفی جذبات کم ہوں گے۔ فرد معاشرت میں بہتر کردار ادا کرے گا
اور خوشی محسوس کرے گا۔
سماجی آگاہی اور روحانی سکون کو فروغ دینے سے
جب لوگوں کو ذہنی سکون اور روحانیت کا سبق دیا جائے گا تو ان کے رویے میں سکون اور
متوازن زندگی گزارنے کا رجحان پیدا ہوگا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
دلوں کو سکون اللہ کے ذکر سے ملتا ہے (سورۃ الرعد: 28)، اس تعلیم کے تحت فرد کی زندگی
میں روحانی سکون اور تسکین آئے گی، جس سے اس کا رویہ نہ صرف مثبت ہوگا، بلکہ وہ
دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کو ترجیح دے گا۔
ریاست اور افراد کی ذمہ
داریاں:
جب معاشرت میں ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر
دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے گا اور ریاست بھی اپنی ذمہ داری پوری کرے گی تو یہ
عمل معاشرے میں انصاف، محبت اور یکجہتی کے رویے کو فروغ دے گا۔ حضرت عمر ؓ کا قول
ہے کہ "اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرے تو اس کا جواب دہ میں
ہوں"۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جس میں ریاست کے فرائض کو اجاگر کیا گیا ہے۔
خلاصہ کلام :
اس متبادل عادلانہ نظام کے نفاذ کے لیے لامحالہ
انقلابی نظریہ، اسی نظریے کے مطابق عمل صالح ،جماعت سازی اور ایک خاص وقت تک صبر
اور عدم تشدد کی حکمت عملی سے کام لینا نا گزیر ہے۔قومی تبدیلی کی منزل میں
کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب عادلانہ سسٹم قائم ہوگا تو ایسے میں فرد میں مثبت
رویوں کا فروغ ممکن ہوگا، کیوں کہ ایک عادلانہ نظام ہی انسانیت، قناعت، عدل اور
اخلاص کو اپنی بنیاد بناتا ہے۔ ایسے نظام میں فرد محض اپنی ذات تک محدود نہیں
رہتا، بلکہ اس کی زندگی دوسروں کے لیے ایک مثال بنتی ہے۔اور اس میں ایثار، قربانی،
محبت اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اور خود غرضی، بے حسی اور مقابلہ بازی کا
خاتمہ ہوگا اور انسان کو اس کی حقیقی انسانیت کے قریب لے جایا جائے گا۔ یوں معاشرت
میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جس میں ہر فرد معاشرتی بھلائی کو اپنا فرض
سمجھے گا۔