صحبتِ صالح کی ضرورت اور اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • صحبتِ صالح کی ضرورت اور اہمیت

    ہمیشہ سے انسانی معاشرے اپنی بقا اور ارتقا کے لیے کسی نہ کسی بلند فکر اور نظریے کی بنیاد پر انسانی معاشروں کو آگے لے جانے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔۔۔۔

    By منظور علی Published on May 05, 2025 Views 352
    صحبتِ صالح کی ضرورت اور اہمیت
    تحریر: منظور علی۔ کراچی

    ہمیشہ سے انسانی معاشرے اپنی بقا اور ارتقا کے لیے کسی نہ کسی بلند فکر اور نظریے کی بنیاد پر انسانی معاشروں کو آگے لے جانے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ خاندانی نظام کی بقا اور تحفظ کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے رہے۔ اس سے ان کا تمدنی یعنی ملکی نظام قائم اور صحت مند رہا،جس طرح ایک خاندان ایک معاشرے کی بنیاد ہے، اسی طرح ایک صالح قوم بین الاقوامیت کی نمائندہ ہوتی ہے۔
    انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انبیا علیہم السلام انسانی معاشروں کی تشکیل میں جو حکمت عملی اختیار کرتے ہیں وہ یہ کہ وہ انسانی نفسیات کو درست (بداخلاقیاں دور) کرکے، صلاحیتوں کو کام میں لا تے ہیں۔مسلم معاشروں کے پاس یہ تجربہ شدہ راستہ موجود ہے کہ وہ اپنے اجتماعی مسائل کے لیے دین اسلام کی جامع فکر سے راہ نمائی لیتے ہیں۔
    ہمیشہ کی طرح آج کے دور میں بھی اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو نوجوان طبقہ مختلف قسم کی برائیوں میں گھرا ہوا ہے۔ نشہ، بے راہروی، مایوسی، دین سے دوری، سرمایہ پرستی اور حرام و حلال کی تمیز کیے بغیر، مال جمع کرنے کی دوڑ میں مگن ہے۔ یہ سب اِنفرادی اور اجتماعی اخلاقی بحران کی علامتیں ہیں۔
    اس کے بر خلاف دنیا میں جن اقوام نے ترقی کی ہے، انھوں نے اپنے اپنے انسانی وسائل کو ایثار کی بنیاد پر منظم کیا، جس کی بدولت وہ نالج بیس اکانومی کی شکل میں، نئے دور کے چیلنجز سے عہدہ برآ ہوئے۔یعنی انسانی وسائل کی تنظیم اور ترقی ہی صحبت صالح کا نتیجہ رہی اور اسی سبب سے مسلم معاشروں کی داخلی توانائی باقی رہی۔ کسی نظام کو تبدیل کرنا آسان ہے، لیکن صدیوں تک قائم رکھنا مشکل ہے، یہ مشکل عمل انبیا علیہم السلام کے طریقے سے ہی ممکن ہے۔
    آج ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انسانوں کی خرابی کا پہلا سبب خواہشات کی رغبت اور بلامقصد زندگی گزارنا ہے، جس کا تعلق صحبت سے ہے۔ انسان جن لوگوں میں اُٹھتا بیٹھتا ہے تو انھی کی عادات اپنا لیتا ہے۔ اس کا ماحول دماغ، قلب اور روح کو متاثر کرتا ہے۔
    بزرگوں کا یہ قول ہے کہ: برے دوست کی مثال کوئلے کی طرح ہے، گرم ہو تو پکڑنے پر ہاتھ جلاتا ہے اور اگر ٹھنڈا ہو تو کالے ضرور کرتا ہے۔
    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    "وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ" (سورۃ الانعام ؛ 68) 
     "اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو۔"
    قرآن حکیم کی یہ آیت ہمیں واضح راہ نمائی دیتی ہے کہ بُرے لوگوں کی صحبت سے بچو، کیوں کہ اس کے اَثرات تباہ کن ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں انسان بنیادی اخلاق تک سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی مفہوم کی وضاحت میں سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ" (سورۃ التوبہ ؛ 119) 
     "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔"
    اس آیت سے ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ سچے اور پاکیزہ کردار کے حامل لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے اور تقویٰ کیا ہے؟ 
    تقویٰ سے مراد حق و باطل میں فرق کرنا، نظام ظلم کے خاتمے کے لیے جِدوجُہد کرنا اور نظام عدل قائم کرنا — تقویٰ ہے۔ 
    جیسے قرآن حکیم میں ارشاد ہے ؛ عدل کرو، یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے۔ (سورۃ المائدہ ؛ 8) 
    جو لوگ تقویٰ پر قائم ہیں، ان کے ساتھ رہنے سے نہ صرف انسان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے، بلکہ اخلاق وکردار بھی نکھرتا ہے۔ ہم اس کی مثال جماعتِ صحابہؓ سے لے سکتے ہیں۔ ایمان اور تقویٰ کی یہ حالت ہے کہ وہ ظلم کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں اور اس کی تمام شکلیں مٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔
    صحبت صالحین کی تاثیر 
    یہ صحبت صالح کا کمال ہے، یہ وہ جوہر ہے جو تزکیہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تو اپنی اَنَا کو مہذب بنانا اور اپنی خواہشوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرا دنیا میں آنے کا مقصد اچھے اخلاق کی تکمیل ہے۔ 
    وہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا ہے، جس سے سوسائٹی میں عدل وامن قائم ہو اور ہر انسان کو دوسرے انسان کی فکر ہو۔ یہی وہ صالح معاشرہ ہے جو قرآن حکیم بنانا چاہتا ہے اور اسی کے لیے انبیا علیہم السلام جدوجہد کرتے ہیں۔
    اگر آپ غور کریں کہ 1300 سال تک وہ اخلاق غالب رہے، کیوں کہ جب تک عدل کا نظام قائم رہا تو ہمارے اخلاق بلند رہے اور ہماری سوچ بلند تھی۔ پہلے درجے میں صحبتِ صالح میں آنا ہوتا ہے، تزکیہ کروانا ہوتا ہے، پھر دوسرے درجے میں ظلم کے خاتمے سے عدل قائم کرنا ہوتا ہے۔
    حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فرماتے ہیں:
    "لمبے عرصے تک ایک نظریے پر برقرار رہنا بغیر اولیاء اللہ کی صحبت کے ممکن نہیں، کیوں کہ صحیح اور درست نظریے کو مفادات کے بغیر قبول کرنا اور اس پر جماؤ اختیار کرنا بہت مشکل عمل ہے"۔ 
    نیک لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا ہمیں نیکی کی طرف مائل کرتا ہے، ہمت اور حوصلہ دیتا ہے، مایوسی دور کرتا ہے، اللہ ربّ العزت کی ذات کا یقین پیدا کرتا ہے، توکل اور صبر کا صحیح فہم سمجھ میں آتا ہے۔ جب کہ منفی سوچ رکھنے والے افراد کی صحبت انسان میں مفاد پرستی، لالچ، گھمنڈ، بدتمیزی، حسد اور کینہ جیسے تباہ کن رویے پیدا کرتی ہے۔
    انسانوں پر ان کے ماحول کا اثر 
    جدید نفسیات کا علم بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انسان کا ماحول اس کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق، انسان جن لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے، وہی اس کے رویے، سوچ اور فیصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ایک معروف نظریہ"Mirror Neurons" کا ہے، جس کے مطابق انسان لاشعوری طور پر اپنے اردگرد موجود لوگوں کے عمل، زبان اور رویے کی نقل کرنے لگتا ہے۔
    اسی طرح "Peer Influence Theory" کہتی ہے کہ انسان کی شخصیت پر سب سے زیادہ اَثر اس کے قریبی دوستوں اور ان کے ماحول کا ہوتا ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت انسان کو نیکی کی طرف مائل کرتی ہے، جب کہ بری صحبت آہستہ آہستہ انسان کی روحانی، اخلاقی اور ذہنی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔آخر میں مولانا رومؒ کی ایک حکایت سے اختتام کرتے ہیں:
    مولانا رومی کی حکایت
    ایک کانٹا روتے ہوئے اللہ سے کہہ رہا تھا کہ میں نے صلحا کی زبان سے سنا ہے کہ آپ کا نام ستار العیوب ہے، یعنی عیبوں کو چھپانے والا، لیکن آپ نے مجھے کانٹا بنایا ہے، میرا عیب کون چھپائے گا؟ اس کی دعا کا یہ اَثر تھا کہ اس کے اوپر پھول کی پنکھڑی پیدا کر دی، تاکہ وہ پھول کے دامن میں اپنا منہ چھپا لے، جن کانٹوں نے پھول کے دامن میں جگہ لی ہو ان کو باغباں نہیں نکالتا، اسی طرح جو اللہ والوں سے جڑ جاتا ہے ان کی برکت سے وہ بھی ایک دن اللہ والا بن جاتا ہے، اللہ والے ایسے پھول ہیں کہ ان کی صحبت میں رہنے والے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں۔
    حاصل گفتگو 
    اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری نوجوان نسل ایک اچھی زندگی گزارے، روشن مستقبل کی طرف بڑھے، دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرے تو ہمیں ایسی صحبت کا دامن تھامنا ہوگا کہ جہاں مقصد حیات متعین ہوتا ہو ۔ یہی وہ راستہ ہے جو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں، کس کی باتیں سن رہے ہیں، کس کو فالو کر رہے ہیں، اور کس کی عادات ہم میں منتقل ہو رہی ہیں۔
    دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک، سچے اور باکردار لوگوں کی صحبت عطا فرمائے۔ ہمیں اپنے نفس پر قابو پانے، سچائی پر ڈٹ جانے، اور ہر حال میں حق کے ساتھ کھڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
    ہمیں عدل کو قائم کرنے اور معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی ہمت اور بصیرت عطا فرمائے۔ اور ہمیں ہر اس صحبت سے محفوظ رکھ جو ہمیں آپ سے دور کردے۔ 
    آمین یا رب العالمین!
    Share via Whatsapp