اسلام کا نظامِ عبادات اور اس کے سماجی اَثرات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اسلام کا نظامِ عبادات اور اس کے سماجی اَثرات

    عبادات کا ایک اہم مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے کہ ......

    By Sufian Khan Published on Dec 23, 2024 Views 250

    اسلام کا نظامِ عبادات اور اس کے سماجی اَثرات 

    تحریر: سفیان خان ۔بنوں

     

    عبادات کا ایک اہم مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے کہ انسانیت کو ظلم سے نجات دلا کر قیامِ عدل کو یقینی بنایا جائے۔مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں "خداپرستی کا لازمی نتیجہ انسان دوستی ہے"۔اسی بناء پہ اسلام نے عبادات کے لیے اجتماعیت کا ایک مربوط نظام قائم کیا ہے۔ 

    نظام صلوٰۃ:

    نماز کو اجتماعی طور پر اور باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حال آں کہ یہ عابد اورمعبود کی گفتگو ہوتی ہے، جو عموماً تنہائی میں کی جاتی ہے، لیکن اسلام کا مقصد عدل کا قیام ہے، اس لیے نماز کو اجتماعی عبادت بنا دیاگیا۔ تمام لوگوں کو کہا گیا کہ گھروں سے نکل کر مسجد میں جمع ہوکر ایک ہی امام کے پیچھے اللہ اکبر کہہ کر عبادت سرانجام دو۔ اور باجماعت نماز کی اہمیت اس طرح فرمائی کہ "میرا جی چاہتاہے کہ میں ایسے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں جو باجماعت نماز پڑھنے کےلیے مسجد میں نہیں آتے یعنی اصل چیز اجتماع اور تنظیم مقصود ہے۔ 

    مسجد ایک ایسی جگہ ہے، جہاں محلے کے سب لوگ جمع ہوکر ڈسپلن اور مساوات کے ساتھ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز سے مقصود صرف اُٹھنا بیٹھنا نہیں بلکہ مسلم پارٹی کی تربیت ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا، لوگو! صفیں بالکل سیدھی رکھا کرو۔ امام کی پیروی کرو ، امام کھڑا ہو،آپ بھی کھڑے ہوجاؤ، امام بیٹھ جائے تو آپ بھی بیٹھ جاؤ - قرآن میں ارشاد الہی ہے "بے شک نماز مؤمنوں پر مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے"۔ان تمام احکامات کامقصد مسلم پارٹی میں اجتماعیت، ڈسپلن اور وحدت کے ساتھ وقت کی پابندی بھی پیدا کرنی ہے۔

    جو اس تربیت کے مرحلے سے گزر جائے گا، اس کے اندر معاشرے میں عدل، مساوات اور اجتماعیت قائم کرنے کا شعور پیدا ہوگا۔ محلے میں پانچ وقت نماز قائم کرنے سے محلے داروں کے حال احوال معلوم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ کسی کی بیماری یا کسی کے معاشی مسئلے سے آگاہی ہوجاتی ہے۔ یعنی مسجد ایک ایسا کمیونٹی سینٹر ہے، جہاں محلے کے تمام لوگوں کی اجتماعی ضروریات کی کفالت ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ دین کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اجتماعیت کے قیام کا باقاعدہ نظام بنا رکھا ہے۔ یہ تربیتی نظام اسلام کی عبادات کو دورِجاہلیت کی عبادات سے ممتاز کرتا ہے۔

    نظامِ صوم:

    ایسے ہی نظامِ صوم ہے۔ آپؐ نے اسے بھی اجتماعیت کا ادارہ بنا دیا۔ پہلے لوگ روزے رکھتے تھے، لیکن اپنی سہولت کے مطابق جب چاہتے رکھ لیتے۔اسلام نے اس کے لیے باقاعدہ سسٹم بنایاکہ 12 مہینوں میں سے ایک مہینہ تمام لوگ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ رکھیں گے۔ یعنی وقت بھی بتا دیا، ڈسپلن بھی بتا دیا، سحری اور افطاری کے آداب و اصول بھی واضح کردیے۔ یوں اجتماعیت کا پورا ایک نظام بتا دیا۔ حتیٰ کہ اگر مریض ہے(کمزوری ہے، مجبوری ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے) تو اسے حکم دیا گیا کہ لوگوں کے سامنے نہیں کھانا پینا۔ یعنی ڈسپلن نہیں توڑنا، اجتماعیت کو ختم نہیں کرنا ہے۔

    نظامِ زکوٰۃ:

    اسی طرح نظام زکوٰۃ بنایا تاکہ اجتماعیت میں معاشی حوالے سے توازن برقرار رہے اور کوئی غربت کی وَجہ سے حقیر مخلوق نہ بن جائے اور کوئی سرمایہ کی زیادتی کی وَجہ سے فرعون نہ بن جائے۔گویا زکوۃکےحکم میں بھی اجتماعیت اور مساوات کا نظام قائم کیا گیا۔

    نظامِ حج:

    اسی طرح حج کا بھی باقاعدہ طور پر نظام قائم کیا اور فرمایا کہ سال میں پانچ دن یعنی 8 ذی الحج سے 13 ذی الحج تک حج کے اعمال (احرام باندھنا،منی ،عرفات جانا، وغیرہ)کرنے ہیں۔ یوں اسلام نے صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ اور حج پر مشتمل ایک جامع نظام تشکیل دے دیا۔

    عبادت کا مقصد ؟

    اَب ان عبادات کے نتیجے میں جو ثمرہ یا آؤٹ پُٹ ملتا ہے، وہ چار بنیادی اخلاق ہیں۔ یہ چار بنیادی اخلاق طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت ہیں، جو کسی بھی سچے عبادت گزار کی لازمی پہچان ہونی چاہیے۔

    طہارت:

    انسان کے جسم و روح دونوں کو پاکیزگی ملے۔ خود کو ہر قسم کے منفی خیالات اور پرتشدد نظریات سے پاک کرے۔ اس کے دل سے وسوسے اور ٹیشن ختم ہوجائیں۔ ماحول سے ہر قسم کی آلودگی ختم کرے، تاکہ انسانی جسم بیماریوں سے محفوظ ہوجائے۔ یہی طہارت ہے جو عبادت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ یاد رہے طہارت صرف ہاتھ منہ دھونے اور نہانے کا نام نہیں، بلکہ جامع پاکیزگی حاصل کرنے کا نام ہے۔

    اخبات الی اللہ:

    مسلمان جب صرف اللہ ہی پر ایمان لایا ہے تو وہ صرف ایک اللہ ہی کی طرف متوجہ ہو۔ کسی پتھر،کسی سورج،کسی فرعون، کسی نمرود، کسی ایڈم سمتھ، کسی میکیاولی، کسی جاگیردار یا سرمایہ دار کے آگے سجدہ ریز نہ ہو۔ قرآن مجید میں غیراللہ کی پیروی کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی اخبات دوسرا بنیادی خلق ہے جو معنی خیز عبادات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

    سماحت:

    تیسرا بنیادی خلق یہ ہے کہ انسان باوقار زندگی گزارے۔ بے وقار نہ ہو، ذلیل نہ ہو، سوال کرنے والا نہ ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اوپروالا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہترہوتا ہے،( مانگنے والے ہاتھ سے دینے والا بہتر ہے۔) اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی پر بوجھ نہ بنو۔ اپنے وسائل خود پیدا کرو، یعنی یہ نہ ہو کہ کشکول لے کر دربدر پھرتا رہے، بلکہ باوقارہو، باعزت ہو، عزتِ نفس ہو۔ یعنی عبادت کے ذریعے سماحت کا خلق پیدا ہونا چاہیے۔

    عدالت:

    چوتھا بنیادی خلق عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یعنی ایک عبادت گزار میں اپنے گھر، محلے، ریاست اور پھر بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا نظام تشکیل دینے کا ہنر ہونا چاہیے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو۔ عبادات سے یہ نتائج نکلنے چاہییں۔ ایک اچھا عبادت گزار وہ ہے جو اپنے گھر کے لیے اچھا ہے، محلے کے لیے اچھا ہے۔ جھوٹ نہ بولے، رشوت نہ کھائے، ملاوٹ نہ کرے، حسد نہ کرے، بغض نہ رکھے، کسی کا حق نہ مارے۔ عبادات کے نتیجے میں انسانی معاشرہ ایسا ہونا چاہیے جو امن و امان والا ہو، معاشی خوش حالی والا ہو، باشعور ہو، بہادر ہو۔ آج ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہماری عبادات یہ نتائج کیوں پیدانہیں کر رہیں۔ ہم نمازی ہیں اور جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ہم میں چوری بھی ہیں اور ظلم بھی کرتے ہیں۔ ہم روزے بھی رکھتے ہیں اور دل میں حسد، کینہ اور بغض بھی رکھتے ہیں۔ ہم زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں اور معاشرے سے بھوک و افلاس بھی ختم نہیں کر سکتے۔ ہم حج بھی ادا کرتے ہیں اور اِنفرادیت کے شکار بھی ہیں۔

    ہماری عبادات نتیجہ خیز کیوں نہیں ہیں؟

    جب نظام دینِ اسلام کے اصولوں پر قائم تھا تو مسلمانوں نے 1000 سال عروج کے گزارے، عزت کے گزارے، بہادری کے گزارے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اس خطے پر جب سے برطانوی سامراج نے قبضہ کیا اور ہمیں غلام بنایا تو اس نے یہاں وہ نظام قائم کیا جو ظلم پر مبنی تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ غربت، افلاس، بھوک، بخل، بداخلاقی، بے شعوری اور ہر قسم کی خرابی تھا۔اسی لیے 200 سوسال سے ہم غلامانہ نظام میں رہ رہے ہیں۔

    پہلا وار؛ قبضہ اور غلامی:

    1757ءمیں سراج الدولہ کو شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضہ کیا۔ 1799ء میں ٹیپو سلطان کو شہید کرکے میسور پر قبضہ کیا۔ 1803ء میں دلی پر قبضہ کیا۔ 1839ء میں رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب پر قبضہ کیا۔ 1843ء میں سندھ پر قبضہ کیا۔ اسی طرح برطانوی سامراج اس خطے پر پورا کا پورا قابض ہوا۔ تو اگلے 90 سال تک ظالمانہ شہنشاہیت کا دور رہا۔ یوں 200 سال ہم غلام رہے ہیں اور ان 200 سالوں میں اس ظالم لٹیرے نے اس خطے کے لیے جو نظام بنایا، بازارکا، عدالت کا، سیاست کا، معیشت کا، محلے کا، وہ ظالمانہ تھا، عادلانہ نہیں تھا، کیوں کہ غلاموں کے لیے کوئی بھی عدل و انصاف کا نظام قائم نہیں کرتا۔ ان کے لیے نظام اس مقصد کےلیےبنایا جاتا ہے، تاکہ ان کے وسائل کو ہموار طریقے سے لوٹا جاسکے۔

    دوسرا وار،تبدیلی نظام:

    1828ءمیں محمڈن کرمنل لاء ختم کر کے برٹش کرمنل لاء نافذ کیا۔ 1835ء میں تعلیمی نظام ختم کر کے لارڈمیکالے نے وہ نظام تعلیم تیار کیا، جس کا مقصد انگریز کے بنائے ہوئے نظام کو چلانے کے لیے کلرکس پیدا کرنے تھے۔ 1835ء میں ہی مالیاتی نظام تبدیل کر کے سودی نظام قائم کیا۔ 1861ء میں پولیس کا فیلڈ سسٹم ہمیں سونپ دیا گیا۔ اسی طرح 1935ء میں انڈیا ایکٹ تیار کیا، جس کے نتیجے میں اسمبلیاں بنائی گئیں۔ جہاں اسمبلی میں جانے کا کرائٹیریا سرمایہ دار، جاگیردار، چوہدری، وڈیرے کا ہونا لازمی قرار دیا گیا۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عبادات کی اصل روح کو سمجھیں اور اپنی عبادات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے دین کو بہ طورِ نظام غالب کرنے کی جدوجہد کریں۔

     

    Share via Whatsapp