نوجوان اور نظریہ
ہمارا نوجوان مایوسی اور غیر یقینی میں مبتلا ہے اس کی وجہ اس کے پاس صحیح نظریہ کا نہ ہونا ہے
نوجوان اور نظریہ
تحریر : طاہر شوکت ، لاہور
لفظ نوجوان سن کر ذہن میں جو تصور آتا ہے وہ یہ کہ ایک ایسا فردجس کا ارادہ اور سوچ اتنی اعلیٰ ہو کہ وہ دنیا سر کرنے کے لیے رو بہ عمل رہے اور اپنے کام پوری تن دہی سے کرتا ہو ۔آپ کسی عمر رسیدہ شخص سے ملیں ، اس کی پختہ سوچ اورحوصلےکودیکھ کرآپ کہتے ہیں یہ جوانوں کی مانند ہے۔دراصل جوانی عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں انسان ایک پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانے کی سوچ رکھ سکتا ہے اور وہ اپنی خوداعتمادی اور جسمانی طاقت کے بل بوتے پر کئی ناقابل یقین کام بھی کر جاتا ہے، وہ نا ممکن کو ممکن بنا نے کی ہمت و طاقت رکھتا ہے۔
مگر آج جب ہم اپنے معاشرے کے نوجوان کی عمومی ذھنی ساخت کا تجزیہ کریں تو یہاں نوجوانوں کا ایک طبقہ مایوسی کا شکار ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں ۔
ہمارامعاشرہ معاشی ، معاشرتی اور کئی سماجی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے۔دیگر طبقات کی طرح نوجوان ان سے بری طر ح متاثر ہے۔ انسان کی مایوسی کے پیچھےماضی کا پچھتاوا، حال کی غیر یقینی صورت حال یا مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ زوال یافتہ معاشروں میں یہ کشمکش نمایاں ھوجا تی ہے ۔ مگر نوجوان کو جواں مردی کےساتھ ان حالات کا سامنا کرنا چاییے۔بطور خاص معاشرے میں موجود باہمت اور مخالف حالات سے بر سر پیکار نوجوان سے حوصلہ لینا ھوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں مایوسی کی سب سے بڑی وجہ نوجوان کے پاس ایک واضح سوچ اور نظریہ کی کمی ہے۔ آج کا نوجوان جزباتی ہو چکا ہے ۔جذبات کی رو میں بہہ جانے والوں کے جذبات کو بھڑکاکرکوئی بھی شاطر اور مفاد پرست طبقہ آسانی سے اپنا آلہ کار بنا لیتا ہے، اور اپنےمقاصد کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔ جذبات سے مغلوب نوجوانوں کی حالت یہ ھوتی ہے کہ وہ حق سننے کو بھی تیار نہیں ہوتا او رومانویت کا شکار ھو جاتا ہے۔ یوں وہ بے سمت بھاگتا رہتا ہے اور بھگانے والا اس کی تعریف بھی کرتا ہے اور تھپکی بھی دیتا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے پیچھےترقی پسند نظریہ ہوتا ہے۔ درست نظریہ نوجوان کو عمل پر آمادہ کرتا ہےجس کے لیے وہ مسلسل کوشش کرتارہتا ہے۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ جس شخص کے پاس اعلی نظریہ ہوتو وہ دوسروں کی نسبت پر سکون اور خوش نظر آتا ہے۔بے شمار مسائل میں گھرا معاشرہ اس بات کی نشان دہی کرتاہے کہ کسی اعلیٰ نظریہ پر اس کی تشکیل نو کی جائے۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ نے ایک جدید معاشرے کی تشکیل کانظریہ دیا۔اس نظریے کی اساس قرآن حکیم ہے۔ آپ نے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ اس دور کا نوجوان قرآن کو بآسانی سمجھے، اس سے براہ راست استفادہ کرے ۔قرآن کا معاشی،معاشرتی اور سیاسی نظام عصری ضرورتوں کو سامنے رکھ کر پیش کیا۔ آج کا نوجوان اسی صورت مسائل کی گرداب سے نکل سکتا ہے کہ وہ ایک صحیح نظریہ کو اپنا لے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارے کیونکہ دنیا میں جب کبھی بھی کوئی معاشرہ ترقی کرتا ہے تو اس کے پس منظر میں ایک بلند فکر اور واضح سمت ھوتی ہے۔
حضرت محمد ﷺ کے دور کا مطالعہ کریں ،آپﷺ نے نوجوان صحابہ کو دین کی جامع فکر سے جوڑا ۔جو اس فکر سے جڑجاتا ہے وہ پر امید ہوجاتا اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ جوڑتا ہے۔
نوجوان کے ذاتی مسائل قومی معاشرتی مسائل سے جڑے ہوتے ہیں ۔ جب وہ ان معاشرتی مسائل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اسے ذاتی مسائل کا حل بھی مل جاتا ہے۔ لہذا ہرنوجوان فردا فردا اپنے ذاتی مسائل میں الجھنےکی بجائےاجتماعی سو چ کو اپنائے ۔ اجتماعی فکر پر منظم ہو اور اپنے اجتماعی معاشرتی مسائل کو حل کرکے مایوسی سے نکلے اور دنیا کی دیگر اقوام کا راہنما بن جائے۔