حج کے مقاصد و اہداف
اس تحریر کا مقصد لوگوں کو اسلام کی عبادات کا بطور ایک نظام سے آگاہ کرنا ہے
حج کے مقاصد و اہداف
تحریر : حافظ طلحہ اختر ، ایگریکلچر یونیورسٹی۔فیصل آباد
دین اسلام کا یہ وصف ہے کہ اس کی کوئی بھی عبادت محض ایک عمل تک محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے اندر ایک ایسا اجتماعی نظام لیے ہوےہوتی ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ انہی میں سے حج بھی ایک عبادت ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان مخصوص ایام میں عرفات کے میدان میں اکٹھے ھو کر بہت بڑی اجتماعیت کا مظاھرہ کرتے ھیں۔ مزدلفہ اور منی میں دیوانہ وار اللہ کی عظمت کی صدائیں بلند کرتے ھیں
حج کے بنیادی مقاصد میں اپنے اخلاق کو مہذب بنانا
اپنی خواھشات کو عقل وشعور کے تابع رکھنا
لڑائی جھگڑوں سے دور رہ کر اپنے اندر سماحت، فیاضی اور برداشت کے رویے پیدا کرنا شامل ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو انفرادی اور اجتماعی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ حج کے ذریعے سے یہ تمام چیزیں پیدا کرنا مقصود ہے جب آدمی سفر حج میں گھر سے باہر ہو تو اسے سخت ترین حالات کا سامنا ہوتا ہے وہ اپنے مال اپنی جان اور اپنی تمام آسائشوں کی قربانی دیتا ہے جو اسے ایک اعلیٰ درجے کا انسان بنانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح حج میں طبقاتیت کے خاتمے کا درس ملتا ہے کیونکہ یہ ایک عالمگیر عبادت کا نام ہے لہذا دنیا بھر کے تمام مسلمان ان مخصوص ایام میں ایک ہی لباس میں ملبوس ھوتے ہیں ۔ حج کے موقع پر جو دعا سکھائی گئی ھے وہ بھی جامع دعاھے، ربنا اتنا فی الدنیا حسنة وفى الآخرة حسنة۔کچھ لوگوں کی دعا بھی محدود ہوتی ہے وہ صرف دنیا مانگتے ہیں اور کچھ دنیا اور آخرت دونوں مانگتے ہیں اور آخر الذکر ھی دین کی روح ھے۔
جب کسی ایسے انسان کو جس کا مطمع نظر صرف دنیا ہو جب اسے کسی نظام کا سربراہ بنایا جائے تو وہ لوگوں کا استحصال شروع کر دیتا ہے اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ خدا کا خوف کرو اور عدل کرو تو اس میں انا آجاتی ہے ظاہر سی بات ھے کہ دنیا پرست انسان کیسے انصاف کر سکتا ہے بالخصوص جب اس کے سامنے جوابداہی کا کوئی نظام موجود نہیں۔
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ(۲۰۶)
ترجمہ:
اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے۔
دوسری طرف وہ شخص ہے جو اپنی جان کو بھی خدا کی امانت سمجھتا ھے ایسے لوگوں کو اللّٰہ تعالی کہتا ہے کہ یہ لوگ وہ ہیں جو پورے کے پورے دین میں داخل ہو گئے
آج ھم اپنے حج کا جائزہ لیں تو وہ ھمیں ان اخلاق سے عاری نظر آتا ھے
آج اتنے بڑے اجتماع کا کوئی نظریہ نہیں کوئی سوچ نہیں، غلبے کا ذھن نہیں جب کہ دنیا کے 8بڑے سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار ممالک مل کر پوری دنیا کی معیشت اور تیسری دنیا کے ممالک کوغلام بناکر اپنے مفادات کے حصول کے لیےجو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ پوری دنیا پر لاگو ہوتا ہے کیا اسلام کا کوئی ایسا فکر نہیں جو انسانی مسائل حل کرے ؟ حج کے اتنے بڑے اجتماع کا بنیادی مقصد ھی اعلی اخلاقی نظم کا مظاھرہ کرکے عالم انسانیت کو اپنا شعوری پیغام دینا ھے، اور انسانی وشیطانی خداؤں کے خلاف بغاوت کر کے عام انسانیت کو ان کے مظالم سے آزادی دلانا ھے۔
حج صرف ایک رسمی عمل نہیں بلکہ ایک تربیتی نظام کا نام ہے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جو حج کیا آپ اس کا مطالعہ کریں کیا آپ نے حج میں صرف انفرادی عمل کیا یا خطبہ حجة الوداع میں کل انسانیت کے حقوق کا جامع پروگرام دیا؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں لوگ چار مقاصد کے لیے حج کریں گے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1)ان کے مال دار لوگ لیے سیر وتفریح کے لیے
2) درمیانے درجے کے لوگ تجارت کے لیے۔
3) ان کے قاری مولوی اور پیر حج کے لیے جائیں گے دکھاوے کی غرض سے تربیت کی غرض سے نہیں
4) فقرا بھی حج کے لیے جائیں گے بھیک مانگنے کے لیے
آج ھمیں سوچنا ھے کہ جتنے لوگ حج کر کے واپس آتے ھیں کیا ان کے کردار میں کوئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے بلکہ وہ تو اگلے حج اور عمرہ کے لیے کمزور لوگوں پر مزید ظلم شروع کر دیتے ھیں ، سوائے مخلصین کے۔
بلکہ آج تو ظلم کی انتہا یہ ہے کہ دنیا میں سامراج نے اپنے مفادات کے لیے کرونا کے ذریعے سے لاک ڈاؤن ملکوں پر مسلط کیا ان کی معیشتوں کو پامال کیا اور اسلام کے اجتماعی نظام کو بھی نقصان پہنچایا نتیجہ یہ کہ اس سال حج صرف چند افراد تک محدود کر دیا گیا وہ بھی مقامی افراد تک۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں مساجد کو پہلے مرحلے میں بند کر دیا گیا پھر چھ فٹ کے فاصلے سے جماعت کی نماز کا خود ساختہ تصور دیا گیا اس پر مذھبی راہنماؤں کی تصدیق بھی ثبت کر دی گئی۔
آج ڈر اور خوف کی حالت یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو ملنا پسند نہیں کرتے سماجی اقدار کو بری طرح متأثر کیا جارہا ہے لیکن کسی طرف سے کوئی مزاحمتی آواز نہیں ہے ۔
اگر مندرجہ بالا گفتگو کے تناظر میں ہم جائزہ لیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج نہ صرف یہ کہ حج بلکہ دین اسلام کی کوئی بھی عبادت ، ظلم کے نظام کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو محض چند ظاھری اعمال تک محدود کر دیا اس کے معاشرتی اور سیاسی نظام کو نہیں سمجھا جب ایسی صورتحال ہو تو پھر نتائج وہی ہوں گے جو آج ہیں آج مساجد کے بند ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مسجد کے جامع تربیتی کردار کو ختم کر دیا جب کہ مسجد نبوی کا ایک عظیم الشان تاریخی کردار ہے اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کو بطور ایک نظام کے سمجھنے اور اس کا شعور حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین