عوامی غیر سنجیدگی کا جائزہ
اپنے معاشرے کو درست کرنے کیلیے ضروری ہے کہ ہم شاہ ولی اللہ رح کے فکر کو سمجھیں اور ان کے مطابق اپنے معاشرے کی تشکیل کریں
عوامی غیر سنجیدگی کا جائزہ
تحریر : رانا طاہر شوکت، لاہور
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ پاکستانی عوام غیر سنجیدہ ہے،قانون کی پابندی نہیں کر تی۔ حکومت، پولیس،فوج ، ڈاکٹرزبھی یہی کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ عوام اپنی ذمہ داری نہیں سمجھ رہے۔مذہبی طبقہ سے بھی یہی رائے آئی ہےکہ اس قوم کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔جبکہ پچھلے ستر سالوں سے یہی عوام اور کسی کی بات مانے یا نہ مانے لیکن مذہبی طبقہ کی ضرور مانتی رہی ہے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام آخر کیوں غیرسنجیدہ ہے ؟ کرونا کے حوالے سے میڈیا پرپروگرامز جا ری ہیں۔ہرطبقہ عوام سے یہی مطالبہ کررہاہے کہ گھر بیٹھو، باہر نہ نکلو، حکومت لاک ڈاؤن کرنا پڑا لیکن عوام ہے کہ گھر بیٹھنے کو تیار نہیں آخر کیوں؟
یہی عوام توبہ واستغفار بھی کر رہی ہے۔ اجتماعی دعائیں بھی مانگ رہی ہے ۔رات کو بعض گھروں میں آذان بھی دی جا رہی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ عوام یہ تو ضرور جانتی ہے کہ کرونا ایک آفت ہے ۔اکثریت اتنا بھی جان چکے ہیں کہ یہ پھیلتی کیسے ہے؟ پھر بھی وہ احتیاط نہیں کر رہے کیوں ؟ یہ بات انسانی فطرت میں ہے کہ ایک چیز کے فائدے اور نقصان کوجانتا ہو تو اس کےفائدہ کو اختیار کر لیتا ہے۔ اگر وہ نقصان دہ ہےتو اس سے ممکنہ حد تک پرہیز کیا جاتا ہے۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ قوم کے اجتماعی رویے کیسے بنتے ہیں؟ قوم کی تہذیب و تمدن کیسے وجود میں آتے ہیں ؟حضرت شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ کسی قوم کو سدھارنے کےلیے اخلاق حسنہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانوں میں چارطرح کے اخلاق(طہارت، اخبات ،سماحت، عدالت) پائے جاتے ہیں ۔
1۔ طہارت :سے مرادپاکیزگی. یعنی ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ جسمانی و روحانی طور پر صاف ستھرا رہے اور دوسروں کےلیے پاکیزہ خیالات رکھے۔ یہ بات ہر انسان کی فطرت میں رکھ دی گئ ہے۔
2۔ اخبات : یعنی ہر انسان میں یہ جذبہ موجود ہے کہ کوئی ایسا ہے جو اس سے برتر ہے اور وہ اس کے سامنےخود کو عاجز پاتا ہے۔ کائنات کے مطالعہ سے یہ بات ملتی ہے کہ یہ ایک مرکز سے چل رہی ہے اس کو کوئی ذات چلا رہی ہے جو اللہ تعالی ہے۔ تو کیوں نہ صرف اسی ایک خدا کے سامنے عاجزی اختیار کی جائے۔
3۔ سماحت :میانہ روی اختیار کرناہے۔ہر شخص کے سامنے کسی بھی عمل کو کرنے کی دوانتہائیں ہوتی ہیں۔ مثلا ایک شخص خرچ کرنے کے معاملے میں مٹھی بند رکھتا ہے یعنی بخیل ہے دوسرا فضول خرچ یعنی اسراف کرتا ہے۔ اس کے اعتدال کی راہ مناسب وقت پر اور صحیح جگہ پر خرچ کرنا اپنے ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کی بھی کوشش کرنا یہ سخاوت ہے، اسی طرح ہر شے میں اعتدال ضروری ہے۔
4۔عدالت : گھریلو سطح سے لے کر شہر ی ، قومی و بین الاقوامی زندگی میں تمام امور کو منظم انداز سے کرنا۔ اس کے سیاسی، معاشی ، معاشرتی اداروں کا درست طریقے سے کام کرنا۔
کسی بھی معاشرے میں بگاڑ کی بڑی وجہ حکومت وقت کا اخلاق رذیلہ پر گرفت نہ کرنا جس سے دیکھا دیکھی لٹیروں کا ٹولہ بن جاتا ہے جو بعد میں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر زوال پذیر کردیتاہے اور پھر بین الاقوامی نظام پر جب ان کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے تو یہ پوری دنیا کو تباہ و برباد کرنے پر تل جاتے ہیں۔
اب اگر ان چار اصولوں کی بنیاد پر ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں تو ظاہری طہارت ہے لیکن باطن پاک نہیں ہے تمام لوگ صاف ستھرے نظر آتے ہیں لیکن باطن بےشمار آلودگیوں میں لتھڑاپڑا ہے۔
دوسرا اصول اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا ہے یہ اصول کچھ اعمال کی صورت میں تو موجود ہیں لیکن معاشرت پر اس کا اثر نظر نہیں آتا۔سماحت یعنی ہر عمل میں اعتدال کی راہ اپنانا لیکن معاشرت میں انتہا پسندی کا غلبہ ہے۔ اگر پہلے تین اصول ٹھیک ہو جائیں اور عدالت کا خلق ٹھیک نہیں ہے تو بھی اس معاشرے کو بگاڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا، اسی طرح عدالت کے خلق پرعمل کے لیے پچھلے تین اصول بروئےکار لانا بھی ضروری ہے۔ اب بظاہر ادارے موجود ہیں لیکن حکمران طبقہ کے پاس اپنے ذاتی ایجنڈے کے علاوہ اجتماعی سوچ کا فقدان ہے۔گھریلو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ علاقائی سطح پر بھی کوئی منظم نظا م نہیں جس کی بنیاد پر شہری تمدن آگے بڑھتا ہے۔
اس تناظر میں جائزہ لیں تو پاکستان میں جو اعدادو شمار ملتے ہیں 10 سے15 فیصد طبقہ ملتا ہے جو خودکفیل ہے باقی عوام یا تو غریب ہیں یاغربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ جب ایک انسان کی معاشی ضروریات حلال طریقے سے پوری نہ ہوں تو لازمی طور پر وہ حرام طریقے کی طرف جاتا ہے اور یوں قانون شکن بن جاتا ہے۔حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ غربت انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ اگر عوام کی بنیادی ضروریات اور حاجات کی تکمیل کا عمدہ معاشی نظام ہوتو شاید ہی کوئی ایسا نظر آئے گا جو قانون کی پاسداری نہ کرے۔ حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ہر انسان فطرت سلیمہ پہ پیدا ہوتا ہے اس کے والدین (یعنی اس کا ماحول) اس کو مجوسی یا یہودی بنادیتے ہیں ۔یعنی جیسے ماحول میں پروان چڑھے گا ویسے ہی اخلاق اپنائے گا۔
اگرآج عوام سے تقاضا یہ ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں تو اس کےلیے لازم ہے کہ پہلے عوام کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کی حکمت عملی بنائی جائے۔ ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک شعوری اور علمی بنیادوں پر اجتماعی نظام حکومت نہ بنایا جائے۔ایسی حکومت کے قیام کےلیے ضروری ہے کہ ایسی جماعت وجود میں آئے جو کسی اعلیٰ نظریہ کی حامل ہو اور جو اس ملک میں اخلاق فاضلہ ،اوراعتدال پر مبنی معاشرت قائم کرے۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر غیر سنجیدگی کاسلسلہ جاری رہے گا اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ "انسان کےلیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے"۔