کیکڑے سے سیکھنے کی کہانی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کیکڑے سے سیکھنے کی کہانی

    اس کہانی کا نفس مضمون یہ ہے کہ انسان کو کاہلی چھوڑ کر مثبت سوچ اور عمل سے اپنی زندگی سنوارنی چاہیے۔

    By خالد محمد ایمان Published on Jan 07, 2025 Views 228

    کیکڑے سے سیکھنے کی کہانی

    تحریر: خالد محمد ایمان (بنوں)

     

    قدرت نے حیات للبقا یعنی زندہ رہنے کی جدوجہد ہر جاندار میں ودیعت کی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی مشاہدے میں بے شمار ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ موجوں سے کھیلنے والے کبھی کبھی ہمت نہیں کرپاتے اور حالات کے رحم و کرم پر اپنے آپ کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان کے انجام سے یہ نتیجہ ذہن میں اُبھرتا ہے کہ زندگی حالات سے مقابلے اور جہد مسلسل سے ہی زندگی بنتی ہےکہ ایک فرد کی جدوجہد مثال بن کر قومی بیداری کا سبب بن جاتی ہے۔اس ضمن میں کیکڑے کی حرکات وسکنات اور زندگی قابل مطالعہ ہے ۔ 

     

    کیکڑا ایک چھوٹا سا آبی جانور ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب پانی کی لہریں اسے کنارے پر لاپٹختی ہیں تو پھر یہ خود پانی میں جانے کی کوشش نہیں کرتا،بلکہ اس بات کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ خود پانی آگے بڑھے اور اسے اپنی موجوں کی آغوش میں لے لے اور اگر پانی کی لہریں اسے واپس نہیں لے جاتیں تو وہ وہیں پڑے پڑے جان دے دیتا ہے۔ یہ خود پسندی اور تن آسانی کی عادت میں غرق ہوتا ہے۔ حال آں کہ ذرا سی کوشش بھی اسے پانی (زندگی) میں لے جانے کے لیے کافی ہوتی ۔ جب کہ پانی چند گَز کے فاصلے پر اسے پناہ دینے کے لیے موجیں مار رہا ہوتا ہے۔اَب جب کیکڑا خود ہی اس کے قریب جانے کو راضی نہیں۔ تو اس عمل کے لیے کوئی اور ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔

     

    موجودہ دنیا میں ایسے معاشرے بھی موجود ہیں۔جن میں موجود انسان کیکڑوں کی سی زندگی گزارتے ہیں-جو اپنے مقصد تخلیق سے بے خبر، بے ہوش اپنی ظاہری چند دن کی چاندنی میں غرق نظر آتے ہیں اور یہی زندگی کو کل سمجھ بیٹھتے ہیں، جب کہ انسان بہ حیثیت اشرف المخلوقات نہ تو چند دن کے لیے پیدا ہوا ہے، نہ ہی وہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرسکتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالٰی نے بہت عظیم مخلوق کے طور پر پیدا کیا ہے جو فرشتوں سے بھی زیادہ بلند مقام و مرتبہ رکھنے والا ہے۔عام افراد کے مقابلے میں آپ ذمہ دار انسان کو کمزور و مایوس نہ پاؤگے۔ شیطانی نظام کے وسوسوں میں جکڑے انسان اپنی پیدائش کے مقصد سے بے خبر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں، جیسے کہ کیکڑا ہے جو اپنی مستی میں گم اپنی زندگی ضائع کر دیتا ہے۔ تاہم کیکڑے کی تو صرف مرنے سے کہانی ختم ہوجاتی ہے، لیکن انسان تو آنے والی ہمیشہ کی زندگی سے کیسے مبرا ہوسکتا ہے۔ وہ تو اپنی دنیاوی ذمہ داریاں بااحسن طریقے سے ادا کرکے ہی "جنت"یعنی ہمیشہ خوشی والی جگہ کی طرف جا سکتے ہیں۔ یا غفلت میں پڑ کر اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلنے کا سامان مہیا کرسکتے ہیں۔آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کے اردگرد ہزاروں،لاکھوں ایسے انسان موجود ہیں کہ جنھیں ان کی بے شعوری،لاپرواہی اور اتفاقات نے بے حسی و لاپرواہی میں ڈال دیا ہے، ساری زندگی وہیں پڑے رہتے ہیں۔تاہم انسان کو تو اس زندگی میں ایک مقصد کےتحت قدم بڑھانا ہے،جس کی وَجہ سے ترقی اور کامیابی کا سمندر ان کے صرف ایک قدم اُٹھانے کا منتظر ہوتا ہے۔انسان اس ایک قدم اُٹھانے سےاپنے جیسے اور افراد معاشرہ کے ساتھ منسلک ہوکر زندگی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی طرف گامزن ہوتا ہے۔جہاں وہ شیطان کے وسوسوں،مایوسی اور منفی سوچوں سے نکل کر مثبت جدوجہد اور تعمیری سوچ کی بدولت زندگی کے روشن پہلوؤں سے واقف ہوتا جاتا ہے۔

    ہمارا دین اسلام ہمیں انسانی ترقی کی ایسی ہی مثبت اقدار سکھاتا ہے،جس سے انسان یہ سوچے کہ آج سے میرا ہر عمل پہلے سے زیادہ بہتر ہوگا،جس کا نتیجہ بھی یقیناً حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح آپ کا کل بہتر سے بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے،جب کہ مایوسی اور نااُمیدی کی منفی سوچ کے سوچنے والے کے ذہن میں ہر آنے والا دن مزید مایوسی، برائی اور تنزلی لاتا ہے۔ 

     

    یہ بات واضح ہے - موجود اور مروجہ نظام یہ سکھاتا ہے کہ حصول دولت کی دوڑ میں شرکت ہی کا میابی ہے ۔ جب کہ علم سے ہمیں تحقیق وتجزیہ کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ رویہ مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اگر موجودہ نظام کا تعلق معاشرے کی ترقی اور خوش حالی سے ہوتا تو آج دنیا کا ہر ملک خوش حال ہوتا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج فرسٹ ورلڈ کہلانے والے انسانی معاشروں کو غربت اور بے روز گاری کا چیلنج در پیش ہے ۔

     

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر انسان کو سوچ سمجھ کر انسانیت کی بھلائی و خیرخواہی کے لیے اپنی ہمت کے مطابق انسانیت کی ترقی کے لیے سوچنا چاہیے،جس سے مثبت توانائی حاصل کرکے اپنے ساتھ دوسروں کو ملا کرقدم بہ قدم آگے بڑھنا ممکن ہوگا-ہمیں چاہیےکہ ہم زندگی کے حوالےسے تعمیری سوچوں کے بارے میں سوچنا شروع کریں تاکہ کوئی بری عادت چھوڑنا یا کوئی اچھی عادت اپنانے اور مثبت سرگرمیوں کو اپنانے میں آسانی ہو۔ایسا کرنے سے ہر فرد مایوسی کے اندھیرے سے نکل سکتا ہے ۔اس کے برعکس اگر کچھ انسان یہ سوچتے ہیں کہ وہ ضرور ملے گاجو قسمت میں لکھا ہے۔ تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔کیوں کہ قسمت میں یہی لکھا ہے کہ کوشش کرنے سے ملے گا جو بھی ملے گا۔

     

    اسی طرح تعمیری،مثبت و ترقی پذیر سوچ اپنانے سے یہ بھی خیال آئے گا کہ ہم اپنی قومی ترقی کے لیے بھی کام کر سکتے ہیں۔

     دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ کیوں کہ جو یہاں دنیا میں بویا جائےگا وہی آخرت میں کاٹا جائےگا۔

    اس لیے ہر ذی شعور انسان کو یہ لازمی سوچنا چاہیےکہ آخر کب تک یونہی مایوس پھرتے رہیں گے، جب کہ تھوڑی سی کوشش سے اور تلاش کرنے سے جلد ہی اپنے جیسے با ہمت افراد مل جائیں گے۔ 

     

    آئیے!اپنے آنے والے کل اور اچھے اور بہتر مستقبل کے بارے میں، اپنی نسلوں کی ترقی و خوش حالی اور ان کے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچیں۔اس سے پہلے کہ موجودہ فرسودہ سوچ پر مبنی حالات و باطل سیاسی جمگھٹے ہمیں کیکڑے جیسی سوچ اپنانے پر مجبور کریں، چلیں خود اور اپنوں کوملا کر قوم کی ترقی خوش حالی اور بہتر مستقبل بارے میں کچھ عملی کام کرکے دکھاتے ہیں۔تاکہ ملکی ترقی کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی سطح پر بھی انبیائے کرام علیہم السلام کے حقیقی وارثین کی اجتماعی ترقی و خوش حالی اور تعمیری نظریات پر مشتمل سوچ اپنا کر اپنے مقصد تخلیق کو حقیقی طور پر ثابت کریں۔

     

    Share via Whatsapp