اپنے ہم سفر کو دوست بنائیں اور پرسکون زندگی جیئیں
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے شوہر اور بیوی دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ضروری ہے، لیکن کچھ لوگوں کی ۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ہم سفر کو دوست بنائیں اور پرسکون زندگی جیئیں
( مکالمے: پہلا دو دوستوں کے درمیان، دوسرا شوہر اور اہلیہ کے درمیان)
محمد اصغر خان سورانی ۔ بنوں
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے شوہر اور بیوی دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ضروری ہے، لیکن کچھ لوگوں کی عائلی زندگی میں بعض اوقات مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے گھریلو رشتے کو اہمیت نہیں دیتے اور باہر کی دنیا میں دل لگاتے ہیں۔
ذیل کے مکالمے میں آصف نامی شخص کے رویے کا جائزہ لیتے ہوئے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک شوہر اپنی بیوی کو نظرانداز کرتا ہے اور یہ رویہ کس طرح ازدواجی زندگی کو متأثر کرتا ہے۔ ناصح اس کا دوست ہے وہ اس کی صحیح راہ نمائی کرتا ہے، تب اس کے ذہن میں بات آجاتی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔
(آصف اور ناصح اپنے محلے میں چچا کریم کی دکان کے پاس رکھی ہوئی چارپائی پر بیٹھے، خوش گپیاں لگا رہے تھے کہ اتنے میں دیکھا کہ گلی میں دو صنف نازک کتابیں ہاتھوں میں تھامے ہوئے کالج کو جارہی تھیں اور آصف مسلسل ان کی طرف دیکھ رہا تھا، حال آں کہ یہ نقاب میں تھیں۔)
ناصح : آصف! کدھر دیکھ رہے ہو یار، بس کرو، راستے میں ان کے پیچھے ایسے دیکھ رہے ہو جیسے کوئی نئی مخلوق ہو۔
آصف : یار! آپ تو جوانی میں بوڑھے ہوچکے ہو۔ میرا تو دل جوان ہے، تم کیا جانو حسن کیا چیز ہے؟
ناصح : بات جوانی یا بڑھاپے کی نہیں، اخلاقیات کی ہے۔ یہ بھی کسی کی بہن یا بیٹی ہوگی۔ کسی کی اہلیہ ہوسکتی ہے اور ہاں اپنی ہمسفر کی قدر کرنی چاہیے، یہ ان کے ساتھ بے وفائی ہے جو آپ کر رہے ہو۔۔۔
آصف : (مسکراتے ہوئے) ہاں! لیکن یار، کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ کاش میری گھر والی فلاں جیسی ہوتی یا فلاں ہوتی۔۔
ناصح : آپ کی اہلیہ سے زیادہ بہتر عورت کون ہوگی اور کہاں ملے گی! وہ پاک دامن ہے، محلے کی بچیاں اسی سے قرآن پاک پڑھنا سیکھتی ہیں۔ کتنی بڑی آپ کے لیے سعادت ہے!۔
آصف : (ہنستے ہوئے) یار، بس دل کرتا ہے کبھی کبھی- اور کیا ہے؟ آپ بھی نصیحت کے لیے بڑے میاں بن گئے ہو۔۔
ناصح : آصف! آپ کو پتہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن حکیم میں نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
"مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں" (سورۃ النور: 30)
آصف : جی میں جانتا ہوں، لیکن یہ اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں کیوں کہ میں نے ٹچ تو نہیں کیا، ہاتھ تو نہیں لگایا۔ بس دور سے دیکھا ہی تو ہے۔
ناصح : بات بہت بڑی ہے! اگر آپ اپنی ہمسفر کی طرف متوجہ نہیں ہو گے اور دیگر خواتین کو دیکھتے رہو گے، تو تمھارا دل اپنے گھر کی نعمت سے دور ہوجائے گا۔ جس کے بارے میں رسول اللَّہ ﷺ نے فرمایا ؛
"دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے" (مسلم)
آصف : (سوچتے ہوئے) لیکن مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میری ہمسفر تو بہت اچھی ہے، مگر میں پھر بھی اِدھر اُدھر دیکھتا ہوں۔
ناصح : سب سے پہلے، آپ کو اپنی نظر کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اگر آپ اللہ کے احکام پر عمل کرو گے اور اپنے قلب ونظر کو پاک رکھو گے تو آپ کی محبت اور توجہ اپنے گھر کی طرف ہو جائے گی۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارو، ان کی خوبیوں کو پہچانو اور انھیں اپنا بہترین دوست بنالو۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفادار گھر والی دی ہے اور اس پر اس کا شکر ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
آصف : (گہری سانس لیتے ہوئے) ہاں! آپ صحیح کہہ رہے ہو۔ میں واقعی اپنی اہلیہ کی قدر نہیں کر رہا۔
ناصح : بالکل، اگر آپ اپنی اہلیہ کو دوست بنا لو تو آپ کو کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ اپنے اہلِ خانہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے، نرم دل انسان تھے۔آپ اپنی ازواجِ مُطَہَّرات کو وقت دیتے تھے اور ان کی باتوں کو سنتے تھے۔ آپ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو اور اسے اپنی دوست بنا لو۔
آصف کی تبدیلی کا سفر :
(اس مکالمے کے بعد آصف کو احساس ہوا کہ اس کا رویہ اس کی ازدواجی زندگی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کو توجہ دے گا اور اپنی نظریں نیچی رکھے گا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی اہلیہ اس کی زندگی کی قیمتی نعمت ہے، اگر وہ اس کی عزت اور اس سے محبت کرے گا تو اس کا یہ رشتہ مضبوط ہوگا۔)
آصف : (بیوی سے مخاطب ہوتے ہوئے) مجھے معاف کرنا، میں نے پہلے آپ کی طرف اتنی توجہ نہیں کی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ آپ میری زندگی کی اہم ساتھی ہو اور میں چاہتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کے لیے بہترین دوست بن جائیں۔ میں غیر اخلاقی رویے پر تھا حال آں کہ آپ میری زندگی میں اہم ہیں۔
بیوی : (نرم لہجے میں خوش ہو کر) آصف صاحب ! میں ہمیشہ یہ محسوس کرتی تھی کہ آپ کا دھیان میری طرف کم ہے۔ مگر میں نے کبھی اس کا شکوہ نہیں کیا، میں چاہتی تھی کہ کسی وقت آپ خود یہ بات سمجھ جائیں گے۔ اَب میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور محبت بھری زندگی گزاریں۔
آصف : (شرمندگی سے) جی مجھ سے غلطی ہوئی۔
بیوی : (مسکراتے ہوئے) مجھے خوشی ہے کہ آپ نے یہ بات سمجھ لی ہے۔
رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا:
"آپ میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہو" (ترمذی)
اگر آپ مجھ سے محبت اور عزت سے پیش آؤ گے تو ہمارا رشتہ ہمیشہ مضبوط رہے گا۔
آصف : (گہری سانس لیتے ہوئے) جی ہاں، میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہترین دوست بن جائیں۔ ایک دوسرے کی ضروریات اور جذبات کا خیال رکھیں۔
بیوی : میں بھی چاہتی ہوں کہ آپ ہمیشہ خوش رہیں اور میں ہمیشہ مشکل وقت میں آپ کے ساتھ ہوں گی۔
آصف : بالکل یہ بھی ضروری ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کریں اور احترام کریں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے:
"وہ تمھارا لباس ہیں اور آپ ان کا ہو" (سورۃ البقرہ: 187) اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی کمزوریوں کو چھپانا ہوگاور ایک دوسرے کی عصمت وناموس کی حفاظت کرنی ہوگی۔
بیوی : بالکل، ہم دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے اور بشری تقاضے سے ہونے والی غلطیوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔
آصف : (سوچتے ہوئے) ہمیں اپنے فرائض بھی سمجھنے چاہئیں، تاکہ ہماری زندگی بہتر ہو۔ آخر میرے فرائض کیا ہیں؟
بیوی : آپ کو میری عزت کرنی چاہیے، خیال رکھنا چاہیے اور مجھے وہ محبت دینی چاہیے جو ایک شوہر کا فرض ہے۔
آصف : (سنجیدگی سے) جی ہاں، اور میرے لیے ضروری ہے کہ میں اپنی نظریں نیچی رکھوں اور اپنے دل میں کسی اور کے لیے کوئی جگہ نہ بناؤں۔
ہمارے لیے ضروری کہ ہم اپنے خاندان کو ترجیح دیں اور اس کی حفاظت کریں۔
بیوی : اور میرا فرض یہ ہے کہ میں آپ کی اطاعت کروں، تعاون کروں اور آپ کی ضروریات کا خیال رکھوں۔
اگر ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آئیں گے تو ہمارا رشتہ مضبوط ہو گا۔
آصف : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہترین شوہر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ میں نے آپ کو اتنی توجہ نہیں دی جتنی دینی چاہیے تھی اور اب میں سمجھتا ہوں کہ مجھے آپ کو دوست بنانا چاہیے۔
بیوی: میں بھی آپ کو زیادہ وقت دوں گی اور آپ کی ضروریات کا خیال رکھوں گی۔ اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھرے تعلق میں جڑ جائیں گے۔
آصف: (اہلیہ سے مخاطب ہو کر) دیکھو، ہم دونوں نے نئی شروعات کا فیصلہ کیا ہے۔ میں آپ کو اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔
بیوی: (خوشی سے) اور میں بھی یہی چاہتی ہوں، آصف صاحب! جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت، عزت اور تعاون کریں گے تو ہماری زندگی میں خوشی اور سکون ہو گا۔ اس سے ہماری اخرت بھی سنور جائے گی۔