انسانی معاشروں کا تجزیہ، سچ اور جھوٹ کے تناظر میں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسانی معاشروں کا تجزیہ، سچ اور جھوٹ کے تناظر میں

    جھوٹ کو سب سے زیادہ خطرہ سوال سے ہوتا ہے اور سچ کو ہمیشہ سوال سے دلچسپی ہوتی ہے

    By Asghar Surani Published on Aug 04, 2024 Views 837

    انسانی معاشروں کا تجزیہ، سچ اور جھوٹ کے تناظر میں

    تحریر: محمد اصغر خان۔ سورانی

     

    پچھلے دنو ں چارلس ڈکنز کا ایک قول دیکھنے کوملا ، وہ لکھتے ہیں کہ ’’جھوٹ کو سب سے زیادہ خطرہ سوال سے ہوتا ہے اور سچ کو ہمیشہ سوال سے دلچسپی ہوتی ہے" ۔ یہ ایک قول کسی بھی سماج کی بہترین عکاسی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ ملک و خطے میں رائج نظاموں کے بارےمیں بھی راہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔چارلس ڈکنز کے اس جملے پر اگر غور کیا جائے تو ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سوال بنیادی طور پر حقیقت اور جھوٹ کے درمیان ایک بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے۔ اگر کوئی سوسائٹی سچ پر قائم ہے اور سچ کو پروان چڑھاتی ہے تو ان معاشروں میں سوال کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، لیکن جو معاشرے اور ان کا سسٹم جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتا ہے، وہاں پر سوال کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں ، جب سسٹم سچ کے بنیاد پر قائم تھا ، عدل کی فراوانی تھی تو اس وقت لوگ خلیفہ وقت سے بھی سوال کر سکتے تھے کہ آپ کے پاس دوسری چادر کہاں سے آئی؟ لیکن ظلم کے نظاموں میں عوام کو یہ موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ حکومتی یا معاشرتی برائی کے حوالے سے سوال اُٹھائے ، اگر کسی نے یہ غلطی کی تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن معاشروں میں سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی وہ پورا معاشرہ غلام ہوتا ہے اور غلاموں کی دنیا میں کوئی قدر اور عزت نہیں ہوتی ۔

    چارلس ڈکنز کے اس قول کو مزید سمجھنے کےلیے آئیں دیکھتے ہیں کہ جھوٹ اور سچ کا ایک سماجی اور سائنسی تجزیہ کیا جائے، تاکہ پتہ چل سکے کہ جھوٹ کی طبیعت کیا ہے اور سچ کی طبیعت کیا ہے؟ اور سچائی کی تلاش میں سوال کرنا اور تنقیدی سوچ رکھنا کتنا اہم ہے۔

    1۔ جھوٹ کی طبیعت یا فطرت: جھوٹ بنیادی طور پر کمزور ہوتا ہے، کسی حقیقت کو چھپانے کے لیے گھڑا گیا ہوتا ہے۔ سیلاب میں یا شدید بارشوں میں وہ مقامات زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں جو سیلابی ریلے کا مقابلہ نہیں کرسکتے ، دیکھا جاتا ہے کہ کمزور بنیادوں والی عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں، لیکن ان کے مقابلے میں پرانی عمارتیں جن کی بنیادیں مضبوط ہوں قائم رہتی ہیں۔

    اَب سمجھنا یہ ہے کہ جھوٹ کس چیز کو چھپانے کے لیے بولا جاتا ہے ؟

     جھوٹ کسی معاملے کی حقیقت کو ظاہر نہ کرنے کے لیے گھڑا جاتا ہے۔ اَب اگر کوئی سوال کرلے تو حقیقت ظاہر ہونے کے اِمکانات ہیں تو یہی وَجہ ہے کہ جھوٹ سوالوں سے ڈرتا ہے، کیوں کہ ہر سوال اسے بے نقاب کرنے کا خطرہ رکھتا ہے۔ جب کوئی جھوٹ کے بارے میں سوال کرتا ہے، تو اس کی حقیقت کھلتی ہے اور جھوٹ بولنے والے کی کمزوریاں سامنے آتی ہیں۔

    2۔ سچ کی طبیعت: دوسری طرف سچ مضبوط ہوتا ہے۔ وہ سوالوں کا خیرمقدم کرتا ہے، کیوں کہ ہر سوال اس کی صداقت کو مزید واضح کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سچ کو جتنا زیادہ جانچا جائے،وہ اتنا ہی زیادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ عموماً دیکھنے کو ملا ہے کہ جب سوسائٹی میں کسی خالص چیز کے بارے پروپگنڈا کیا گیا ہے تو لوگوں نے اس کو جانچنے کی کوشش کی ہے اور سوسائٹی میں اس کو مزید تقویت مل جاتی ہے، خواہ وہ کوئی شخصیت ہو، نظریہ ہو، یا کسی علاقے یا ملک کا نظام ہو۔

    3۔ تحقیق کی اہمیت: ڈکنز کا یہ قول ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ سوال کرنا اور تحقیق کرنا کتنا ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر کسی جھوٹ کو بغیر تحقیق کیے مان لیاجائے اور اس جھوٹ پر عمل کے نتیجے میں سوسائٹی میں کوئی بےچینی پیدا ہوجائے تو بعد میں پشیمانی کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ قرآن کریم اس بارے سورۃ حجرات میں فرماتا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ۔

     ترجمہ "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو"۔ ( سورۃ الحجرات آیت نمبر 6)

     تو سوال بنیادی طورپر تحقیق کرنے کی پہلی سیڑھی ہے، اگر کوئی کسی واقعے کے بارے میں سوال نہ کرے تو اس کے لیےحقیقت تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تو سوال سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

    ایک اور جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ انسان کوئی بات بلاتحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

    ’’وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا۔‘‘ (سورۃ الاسراء: 36 )

    ترجمہ: ’’اور جس بات کی تجھے خبر نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ، بے شک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہوگی‘‘۔

    تفسیر عثمانی میں مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر، آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کراور بقدرِ کفایت تحقیق کرکےکوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے۔ یوں ہی اَٹکل پچو سے کوئی قطعی حکم نہ لگائےیا عمل درآمد شروع نہ کردے ، اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کرکسی کے درپے آزار ہونا، یا بغض و عداوت قائم کرلینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلافِ شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، اَن دیکھی، یا اَن سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا، غیرمعلوم اشیا کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں، یہ سب صورتیں اس آیت کےتحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن تمام قویٰ کی نسبت سوال ہوگاکہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیاتھا؟ بے موقع تو خرچ نہیں کیا ۔

    4۔ شفافیت: جھوٹ عموماً چیزوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ سچ شفافیت کو فروغ دیتا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں ٹرانسپیرینسی کی باتیں ہورہی ہیں اور ہر شبعہ میں شفافیت کو فروع دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں اور مختلف ذیلی ادارے قائم کیے جاتے ہیں، تاکہ معلومات تک رسائی ہو اور اداروں میں ہونے والے امور میں شفافیت کوعمل میں لایا جائے ۔ اس کی برعکس جھوٹ چیزوں کواور معلومات کو، چھپانے کی کوشش کرتا ہے ۔

    اب اگر سوسائٹی میں سوالات کرنے کا موقع موجود ہوتو جھوٹ کو تو شکست فاش ہوگی۔

    5۔ ذہنی نشوونما:جن سوسائٹیوں میں سوال کرنے کا رجحان موجود ہے، وہاں کے نوجوانوں کی ذہنی سطح اور ان کا مختلف چیزوں کو پرکھنےکا انداز ان علاقوں کے نوجوانوں سے کافی بہتر ہوگا، جہاں پر سوالا ت اٹھانے کا موقع نہ دیا جاتاہو۔

    قدیم فسلفے کی ابتدا ہی سوال سے ہوئی ہے۔ اس کی مثال ایک چھوٹے سے بچے کی طرح ہے۔ وہ ہر چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ ہر سوال کا جواب بچے کی ذہنی نشوونما میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ انسان سازی کے لیے ضروری ہے کہ انسان مسلسل سوالات اٹھاتا رہے اور ان کے جوابات سے سیکھتا رہے۔دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہاں پر سوال کرنے کی پابندی نہیں ہوتی۔

    انسان جب تک سوال نہیں اٹھاتا، اس وقت تک جواب نہیں مل سکتا۔ دنیا کا کوئی بھی محقق، فلسفی اور سائنس دان اپنی تحقیق کا آغاز سوال سے ہی کرتا ہے۔ جب وہ سوال کرتا ہے تو اس کا ذھن جواب تلاش کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ الغرض سوال کرنے سے انسانی ذہن کی بڑھوتری ہوتی ہے ۔

    اگر ہم اپنے نوجوانوں کی ذہنی آبیاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے ماحول کو، ایسے تعلیمی نظام کو اور ایسے سماجی اور عدالتی نظام کو فروع دیں، جس میں سوال کرنے والے ذھن کو قابل ستائش سمجھا جائے اور نوجوانوں کو یہ ترغیب ملے کہ معلومات کو بغیر سوال کیے قبول نہ کریں۔

    اللہ تعالی ہمیں اپنے معاشرے میں سچ کو فروغ دینے اور جھوٹ کومٹانے کی توفیق عنایت فرمائے ۔

    Share via Whatsapp