ہمارا معاشرہ اور اس کا مستقبل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ہمارا معاشرہ اور اس کا مستقبل

    اگر ہم نے اپنے معاشرے کو درست بنیادوں پر کھڑا نہ کیا تو تباہی ہمارا مقدر ہو گی.

    By Tahir shaukat Published on Oct 22, 2019 Views 3577
    ہمارا معاشرہ اوراس کا مستقبل
    تحریر: طاہر شوکت, لاہور

    اللہ تعالےنےانسان کواشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے. اور اس کے بارےمیں یہ بھی کہا کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے.اللہ نے قرآن میں فرمایا ,

    اور (یاد کر اس وقت کو)جب کہاتیرےرب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والاھوں زمین می ایک نائب 

    جس کا مطلب ہےکہ انسان دنیا میں اللہ کی منشا کے مطابق عدل پر مبنی حکومت قائم کرےگا. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نےایک موقع پر فرمایا:
    تم میں سے ہر شخص (اپنے ماتحتوں کا)کا نگہبان ہے اور ہر ایک نگہبان سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا, 
    اس سے پتا چلتا ہے کہ انسان کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے۔
    اس مقصد کی تکمیل اور انسان کی ھدایت کے لیے اللہ نےانبیا کو بھیجا۔ لہذا انسان نے جب بھی اپنے مقصد سے روگردانی کی تو اس کی رہنمائی کےلیے اللہ نے اپنے برگزیدہ بندے بھیجے اس طرح یہ سلسلہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام کو پہنچا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعیے انسانی ھدایت کی تکمیل کردی گئی ۔ 
    اب  جب کبھی انسانوں کو مسائل درپیش ھوں گےتو ان کااصولی حل انہیں قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں مل جائے گا تاہم حالات کے تقاضوں کے تحت اس کا عملی ڈھانچہ انسان نے خود بناناہے۔
    اللہ نے انسان کے اندر جو خوبیاں رکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ہمیشہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہتا ہے۔اس کی یہ تربیت اس کے فطری تقاضوں اور دنیا میں آنے سے قبل جنت کی رہائش کے ذریعیے ھوئی۔ جنت میں اس کی تربیت کی گئی تاکہ یہ دنیا میں ایسا ماحول بنا سکے یعنی اللہ نے دنیا میں آنے سے پہلے ہی انسان کی منزل کا تعین کر دیا کہ دنیا کو ایسا بنانا ہے۔اللہ نےہر انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے کہ وہ جنت کے ماحول کو پسند کرتا ہے۔مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ احکام خداوندی کے مطابق اس دنیا کو جنت کی طرح بنائیں ۔
    ہمارے ملک اور پوری دنیا کے موجودہ مسائل ہم سے تقاضا  کرتے ہیں کہ ہم ان کا حل تلاش کریں کیونکہ اب کسی نبی یا پیغمبر نے آنا نہیں ہے جبکہ اللہ نے مسائل کے حل کرنے کے بنیادی اصول ہمیں بتا دیے  ہیں۔
    آج کی حکومتیں چاند پر پہنچنے کی کوشش میں تو مصروف ہیں مگر انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے اور ان کی خوش حالی کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتیں۔انسان آج بھی جانوروں کی سی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ یہ مسائل کیسے پیدا ہوئے۔ایک ذی شعور انسان کے سامنے جب مسائل آتے ہیں تو وہ ان کے اسباب کی تلاش کرکے ان کو حل کرنے کا طریقہ سوچتا ہے۔اور جب بھی کسی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس بات پہ بھی غور کیاجاتا ہے کہ یہ مسائل اگر پہلے بھی کسی کو پیش آئے تھے تو ان کا حل کیا نکالا گیا اور وہ کس حد تک دنیا کو فائدہ دے سکے۔پھر عصری تقاضوں کے مطابق حل نکالا جاتاہے۔آج ہم اگر دیکھیں تو ہمارے معاشرے کا بگاڑ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے. اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب معاشرہ بگاڑ کی ڈگر پر چل پڑے اور اس کا حکمران طبقہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کررہا ھو تو وہاں انقلاب لایا جاتا ہے اور پورے سسٹم کو بدلا جاتا ہے اگر ہم اپنے ملک پاکستا ن کی بات کریں تو سب کے سامنے عیاں ہے کہ ہم کس راہ پر چل رہے ہیں اور اگر یوں ہی چلتے رہے تو پھر ہمارا انجام بھی بہت برا ھو گا۔اس لیے ہم پہ یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو سامنے رکھیں اور ان اصولوں اور ضابطوں کے مطابق اپنے دور کےمسائل کاحل تلاش کریں. 
    آج ہمارے ہاں انقلاب کایہ نظریہ دیا گیا ہے کہ حکومت میں ایک دو چہرے بدل دینے سے انقلاب آجاتا ہے یہ دھوکہ ہے اور انقلابی عمل کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ ہمارے تمام مسائل کی جڑ استحصال پر مبنی نظام  ہے اگر اسے بدل دیا جائے تو بہت سے چھوٹے مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے۔اب مکمل انقلاب کے بغیر کام نہیں چل سکتا. اس کےلیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تربیت اس نظریے پر کریں جو انقلابی ھو۔ دور حاضر میں اس کا حل شاہ ولی اللہ کے افکار میں موجود ہے۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ رح نے جب برصغیر کے حالات کو بدلتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے یہ بھانپ لیا کہ ہمارا معاشرہ اب انقلاب کے بنا نہیں سدھر سکتا۔انہوں نےاس کےلیے" فک کل نظام" کا نظریہ دیا اور یہی نظریہ آج اپنانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم صرف تقریریں ہی کر سکتے ہیں اور کوئی عملی نتائج نہیں لا سکتے.
    Share via Whatsapp