انسان کا مقصد تخلیق - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسان کا مقصد تخلیق

    اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے اب نائب کے لئے فرض ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے احکام کے مطابق اس کائنات کا نظام بنائے

    By Tahir shaukat Published on Mar 07, 2020 Views 10382

    انسان کا مقصد تخلیق

    تحریر: طاہر شوکت، لاہور

     

    اللہ تعالی نےجب انسان کو زمین پر بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس کے مقصد سے فرشتوں کو  آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:

    اني جاعل في الارض خليفة

    میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں.

    اس سے ہمیں انسان کا مقصد تخلیق کا پتا چلتا ہے کہ انسان کو زمین پر کس لیے بھیجا گیا؟

     ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں ۔ ہم کو باقی مخلوق سے بلند اور اشرف المخلوقات بنایا گیا تو کس لیے؟اور یہ بھی کہ، خلیفہ کس کا بنا کر بھیجا گیا ہے اور اس کے ہماری زندگی پر کیا اثرات ہیں ؟اور ہم اس بارے میں بھی سوچیں کہ ایک خلیفہ یا حکمران کس بنیاد پر بنایا جاتا ہے اور اس میں ایسی کیا اہلیت ہے کہ باقیوں پر اس کو فضیلت دی جائے. اور وہ دوسروں کی زندگی کس طرح متأثر کر سکتا ہے ؟

     

    اگر ہم خلیفہ کے بارے میں سوچیں تو معلوم ہو گا کہ ایک خلیفہ کو جب بنایا جاتا ہے تو وہ وہی کام کرتا ہے جو اسے اس کا مالک یعنی بادشاہ کہتا ہے وہ اپنے تمام کام اپنی مرضی کے بجائے اپنے مالک کی مرضی کے مطابق کرتا ہے .اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر کس لیے بھیجا تو اس کےلیے ہمیں پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ اللہ تعالی کی کیا خصوصیات ہیں اور وہ اس کائنات سے کیا چاہتا ہے ؟

     قرآن پاک میں اللہ نے اپنی خصوصیات کا کئی مرتبہ ذکر کیا ہے اور  اگر ہم صرف اسماہ حسنہ کو دیکھ لیں تو ہر نام اللہ کی الگ خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے ویسے تو ہم اللہ تعالی کی خصوصیات اور انعامات کو شمار نہیں کر سکتے کہ کتنی ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے خود فرمادیا

    "وان تعدوا نعمۃ اللہ لاتحصوھا۔

    تم اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو ان کا شمار نہیں کرسکوگے"

    ایک بادشاہ جب کسی کو اپنا نائب اور خلیفہ بناتا ہے تو اس سے چاہتا ہے کہ وہ وہ کام کرے جو میں چاہتا ہوں. اب اللہ تعالی انسان اور کائنات سے کیا چاہتا ہے اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصیات انسان میں پیدا کرکے صالح معاشرے کا قیام چاہتا ہے جہاں انسان امن و آزادی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی اتباع میں اپنی زندگی گذارکر دنیا کو جنت بنائے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ رحیم ہے تو انسان میں رحیمیت کی خاصیت ہو تاکہ عام انسانوں کے لیے وہ رحمت بن جائے۔

    چوں کہ یہ دنیا اور کائنات اللہ تعالی نے خود بنائی ہے تو جو چیز بنانے والا ہوتا ہے وہ ہر طرح سے اس کی بہتری چاہتا ہے ۔اللہ تعالیٰ انسانوں کی بہتری اور ترقی چاہتا ہے۔ لیکن انسان کا ایک کھلا دشمن شیطان ہے جس نے انسان کو جنت سے نکالا تھا۔

    اللہ تعالی نے جب حضرت آدم ع کو  پیدا کیا تو سب سے پہلے ان کی جان پہچان فرشتوں اور شیطان سےکروائی کہ لامحالہ آدم اور ان کی  اولاد کو ان دو مختلف مخلوق سے واسطہ پڑےگا. ایک ان کی مدد کرے گا اور ایک مخالف اور دشمن رہے گا یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انسان کا وجود ہے، اسے شیطان اور اس کی قوتوں سے پچنا ہوگا ورنہ وہ بڑے خسارے میں آئےگا اور پھر عمل کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی اور جو بھی عمل کیا جائےگا اس کا اسے نتیجہ ملے گا.

    اب سوچنا چاہیئےکہ انسان نے کام کیا کرنا ہے تو اس کا اہتمام بھی اللہ تعالی نے خود فرما دیا. اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے اس کو جنت میں رہائش دی گئ تاکہ یہ سیکھ لے کہ اسے دنیا کو جنت کیسے بنانا ہے. اسے جہنم کا بھی بتایا اور جنت کا بھی۔ کہ ان کے سامنے اب دو راستے ہیں ان دو راستوں میں دو طرح کی مخلوق ان کی مدد کرے گی جنت کے راستے پر فرشتے مدد کو پہنچیں گے اور جہنم کے راستے پر شیطان ان کے ساتھ ہو گا. اب جس طرح بادشاہ ایک خلیفہ بنا کر اس کو اختیار دے دیتا ہے کہ جیسے بھی کرو نتائج میرے مطابق لانا ہوگا تو بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے بھی حضرت انسان کو پیدا کیا پھر اس کو جنت و جہنم کے معیار بتا کر دنیا میں بھیجنے کا ارادہ کیا. اور اسے اختیار دے دیا کہ جو کرنا ہے کرو مگر ایک بات یاد رکھنا کہ لوٹ کر میری طرف ہی  آنا ہے. اس وقت میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا اور تم نے دنیا میں جو بھی عمل کیا ہو گا اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا.

    اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :

    "اس دن کسی پر رتی برابر بھی ظلم نہ ہوگا"

    آئیے ! ہم اپنے ملک کو دیکھیں کہ ہمارے حکمران انسانی تخلیق کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں؟ وہ کیا کام کرتے ہیں  وہ جو وعدے کرتے ہیں ، جو منشور اور نظریہ دیتے ہیں کیا وہ اس پر عمل کرتے ہیں؟ اگر کرتے ہیں تو ہمارے ملک پر اس کے کیا اثرات و نتائج صادر ہوئے؟

    اور پھر ہمیں یہ بھی سمجھنا ضروری ہےکہ ہمارے حکمران کیسے منتخب ہوتے ہیں ؟

    کیا واقعتاً وہ ہمارے دیے گئے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں ؟

    اگر نہیں! تو۔۔۔ہم ان سے خدمت انسانیت اور تکمیل مقصد تخلیق کی کیسے توقع رکھیں ؟ جو ان کے حکمران بننے کی ذمہ داری میں شامل ہے

    اب ساری صورت حال ہمارے سامنے  ہے. کہ ہم نے کیا کرنا ہے ہم نے کونسے راستے پر چلنا ہے؟ اور کس طرح صالح معاشرہ قائم کرکے شیطانی قوتوں کو ناکام ونامراد بناکر دنیا کو جنت بنانا یے اور مقصد تخلیق کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے .

    اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہم کو صحیح شعور اور علم عطا کرے اور درست راستے پر چلنے کی توفیق دے. آمین!

    Share via Whatsapp