اچھائی اور برائی کی منطق
یہ تحریر اچھائی اور برائی میں چھپی منطق اور عقلی راز کو عیاں کرتی ہے۔
اچھائی اور برائی کی منطق
تحریر: شاہ محمد، گھوٹکی
بچپن سے معاشرہ ہمارے اندر ایک سوچ منتقل کرتا ہے کہ اچھائی کو اپنانا چاہیے اور برائی کا انکار کرنا چاہیے۔ ہم بس گناہ و ثواب کی خاطر مان لیتے ہیں کہ اچھائی کا پرچار کرو اور برائی سے روکو۔ لیکن آخر ایسا کیوں؟ اچھائی کو کیوں اپنائیں اور برائی سے کیوں روکیں؟ اس کے پیچھے منطق (logic) کیا ہے؟ گناہ و ثواب سے ہٹ کر آئیے اچھائی اور برائی (Virtue and Vice) کے نظریے کو عقلی بنیادوں پر پرکھ کے دیکھتے ہیں۔
دراصل اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ اچھائی انفرادی و اجتماعی/سماجی ترقی کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ اور برائی ہمیشہ انفرادی و اجتماعی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔ مگر کیسے؟ آئیے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تکبر (arrogance) ایک برائی ہے اور عاجزی (humility) ایک اچھائی۔ دنیا کے سب مذاہب اور عام انسانی اخلاقیات میں تکبر کو برا کہا گیا ہے۔ انفرادی سطح پے اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ مغرور آدمی خود کو سب سے بالاتر (superior) سمجھنے لگتا ہے، خود کو ہی صحیح سمجھتا ہے۔ وہ کسی کی نہیں سنتا اور تجاویز قبول نہیں کرتا۔ نتیجتاً اس کی عقلی ترقی رک جاتی ہے۔ کیونکہ وہ نئے خیالات و نظریات کو اپنے دماغ میں داخل ہی نہیں ہونے دیتا۔ اس کا تکبر اس کے دماغ کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے۔
دوسری طرف ایک عاجز آدمی ہمیشہ دوسروں کی بات غور سے سنتا ہے۔ خود کو بالاتر نہیں سمجھتا اور نئے خیالات کو قبول کرتا ہے۔ نتیجتاً اس کی عقلی ترقی ہوتی رہتی ہے۔ اسی لیے سقراط نے کہا "میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔"
(The only thing I know is that I know nothing)
دراصل اس قول میں سقراط عاجزی کا سبق دے رہا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ ایک عظیم اور باشعور انسان بننے کے لیے آپ کو عاجزی کا دامن تھام کہ رکھنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں یہ سمجھ لیجیے کہ "انسانی عقل عاجزی کا تقاضہ کرتی ہے۔" (Wisdom demands humility)
اچھائی اور برائی کی یہ منطق قوموں اور حکومتوں پر بھی اتنی ہی ٹھیک بیٹھتی ہے۔ امریکہ کو ہی لے لیجیے۔ امریکہ کا مقتدر طبقہ انتہائی مغرور ہو چکا ہے۔ وہ عالمی سیاست میں کسی کی نہیں سن رہا اور بس اپنی ہی بات منوانا چاہتا ہے۔ اس کا یہی تکبر اس کو اپنے نظام میں اصلاحات (reforms) قبول کرنے سے روک رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا نتیجہ امریکہ کی پستی اور زوال کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔
اسی لحاظ سے باقی اچھائیوں اور برائیوں مثلاً سچ اور جھوٹ، انصاف اور ظلم، امانت اور خیانت، وفاداری اور دھوکہ بازی وغیرہ میں بھی یہی راز کارفرما ہے۔ ان میں سے ایک، فرد و معاشرے کو بناتا ہے، اور دوسرہ اس کو توڑتا ہے۔ جب ہمیں یہ منطق اور عقلی راز سمجھ میں آ جائے گا تب ہی ہم اچھائی کو دل و جاں سے قبول کریں گے، اس کے غلبے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اور برائی کا کُلی انکار کریں گے۔
"اچھا کرو، کیونکہ اللّہ کو صرف اچھا ہی پسند ہے۔" القرآن