نظریات کی جنگ؛غلط صحیح کی پہچان - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نظریات کی جنگ؛غلط صحیح کی پہچان

    نظریات کی جنگ؛غلط صحیح کی پہچان

    By Sufian Khan Published on Aug 31, 2024 Views 568

    نظریات کی جنگ؛غلط صحیح کی پہچان

    مشترکہ کاوش: رحمت اللہ ، سفیان خان ( بنوں)

     

     

    زوال یافتہ انسانی معاشرے میں مختلف نظریات کی بھرمار ہوتی ہیں، بعض نظریات ظاہری طور پر بہت پرکشش ہوتے ہیں،جب کہ ان کے خمیر میں انسان دشمنی، نفرت اور تقسیم چُھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کی مثال بازار میں ملنے والی رنگ برنگی، پر کشش، خوشبودار اور ملاوٹ سے بھرپور چیزوں کی ہے جو اصل میں صحت کے لیے مضر ثابت ہوتی ہیں۔ ان نظریات کو اپنانا معاشرتی بدہضمی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا نظریہ جو محدود کرتا ہو، تقسیم کرتا ہو، سماج کے لیے مُضر اور باطل نظریہ کہلاتا ہے۔

    اس کے برعکس حقیقی نظریہ دودھ کی طرح صاف اور شفاف ہوتا ہے، جس میں وہ تمام ضروری اجزا مثلاً پروٹین، کیلشیم، ویٹامنز وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو انسانی صحت کی طرح کسی بھی انسانی سماج کی بہتری، خوش حالی اور ترقی کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔

    اَب سوال یہ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یقیناً ہر معقول اور حقیقت پسند انسان کا جواب یہی ہوگا کہ ہمیں سچے نظریات کو اپنانا چاہیے،لیکن اس کے لیے پہلے سچےنظریے یا عالمی سچائی سے آگہی ضروری ہے۔ یوں ہمیں جھوٹے نظریے کی پرکھ میسر آئے گی ۔

    باطل نظریے کی پہچان

    ہر وہ نظریہ جو کسی خاص گروہ، قوم، قبیلے،فرقے کی بات کرے اورمعاشرے میں موجود باقی اکائیوں کو تسلیم کرنے سے انکارکرے، اِنفرادی اور جزوی اصلاحات سے ظلم کا وہ کارخانہ ختم نہیں ہوسکتا جو ہماری تقسیم کی وَجہ سے ہم پر ظلم کرتا رہتا ہے۔

    ہر وہ نظریہ باطل ہے جو تقسیم کو اپنا مشن بنائے۔ رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم فرعونوں کا کام ہے۔

    ہر وہ نظریہ تقسیم کا بڑا سبب ہے جو سسٹم کے بجائے چھوٹے چھوٹے ظالموں (افراد، اداروں وغیرہ) پر اپنا فوکس جمائے رکھے۔

    ہر وہ نظریہ جس میں کوئی پختگی اور استحکام شامل نہ ہو۔بدلتی ہوئی لہروں کےساتھ بدلتے ہوئے نظریات ”باطل“ کہلاتے ہیں۔

    ہر وہ نظریہ جو خواہش اور خیالی تصورات پر مبنی ہو- جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تربیتی پروگرام موجود نہ ہو۔ تربیتی پروگرام نہ ہونے کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے۔ ”نعرے باز اور شخصیت پرست کارکنان پیدا کرنا“..ایسے کارکنان جنھیں ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کے لیےکسی بھی وقت استعمال کرنا ممکن ہو۔

    سچے نظریے کی پہچان 

    سچا نظریہ وہ ہے جو کسی خاص گروہ، قوم، قبیلے یا فرقے کے بجائے تمام انسانیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود دُکھی انسانیت کا درد اپنا درد سمجھنا حق پرستوں کی نشانی ہے۔ البتہ اس کے لیے حکمت عملی ہر دور کی جدا جدا ہوتی ہے۔

    سچا نظریہ وہ ہے جو انسانوں کو متحد رکھنے کی بات کرے اور انھیں تقسیم ہونے سے بچائے۔ سچے نظریے پر چلنے والی جماعت اپنی جغرافیائی حدود کے اندر رہتے ہوئے تمام انسانوں کو بلا رنگ و نسل، زبان اور مذہب کے ایک ساتھ آگے لے کر چلتی ہے۔ مظلوموں کو ایک پیج پر لے کر آنا، حق پرستوں کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے۔

    سچا نظریہ وہ ہے جو ظلم کے منبع (root cause) کی بات کرے۔ راہِ حق پہ چلنے والے تمام مسائل کے پیچھے چُھپی طاغوتی قوت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حق پرستوں کو روزِ اول سے اپنا ٹارگٹ بالکل واضح (crystal clear) ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے اداروں اور ماتحتوں کو اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، بلکہ سیدھا فرعون کے سامنے جاکر بنی اسرائیل کو آزاد کرانے کی بات کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے آلہ کاروں کے بجائے سیدھا نمرودی نظام کو ٹارگٹ کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ابوجہل کی سرپرستی میں کام کرنے والوں پر اپنی انرجی صرف نہیں کی، بلکہ سیدھا ابوجہل اور ابوجہل کی پارلیمنٹ (دارالندوہ) کو اپنا ٹارگٹ بنایا۔

    سچا نظریہ وہ ہے، جس کو وقت اور حالات کی سختی مزید پختہ کر دیتی ہے۔ حق پرستوں کا نظریہ اٹل ہوتا ہے۔ جبر وتشدد کی راہ سے گزرنے کے باوجود جس میں ذرہ برابر تبدیلی کی گنجائش موجود نہ ہو، وہی نظریہ سچا ہے۔

    سچا نظریہ وہ ہے جو عقلی اور تاریخی اعتبار سے نافذالعمل (practical) ہو، اور جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تربیتی پروگرام موجود ہو۔ جہاں نعرے باز کارکنان کے بجائے مستقبل کے لیے خوددار رجال کار تیار کیے جاتے ہوں، جہاں اندھی تقلید کے بجائے تنقیدی اور تخلیقی سوچ (critical thinking) سکھائی جاتی ہو، جہاں ہاں میں ہاں ملانے کا تصور (blind agrement) موجود نہ ہو، بلکہ ہر حال میں سوال کا خیرمقدم کیا جاتا ہو۔ 

    اَب جب کہ حق اور باطل نظریے کے اشاریے (indicators) ہمارے سامنے ہیں، تو ہمیں سوسائٹی میں موجود ہر نظریے کو اٹھا کر پرکھنا ہے کہ وہ کس معیار پر پورا اُترتا ہے۔ نوجوان اگر سیاسی شعور سے فیصلے کرنے لگے تو بار بار استعمال ہونے سے بچ سکتے ہیں، اور حقیقی نظریے پر کاربند جماعت کا حصہ بن کر معاشرے کی تشکیلِ نو میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 

    اللہ تعالیٰ ہمیں شعور کی نعمت سے آراستہ کریں اور ہمیں حق پرستوں کے دائرے میں شامل کر دیں۔ آمین!

    Share via Whatsapp