دینِ اسلام اور انسانیت
دینِ اسلام نے معاشرے میں انسانیت کی بنیاد پر عادلانہ نظام کے ذرئعے کل انسانیت کے مسائل کا حل پیش کیا ہے
دینِ اسلام اور انسانیت
تحریر: عابد حسین کولاچی، اسلام آباد
اللہ رب العزت اس کائنات کا خالق و مالک ہےجوایک طے شدہ قاعدے اور قانون کے تحت اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے جسے قرآن حکیم کی اصطلاح میں سنت اللہ کہا جاتا ہے،عرف عام میں ہم اسے قانون قدرت بھی کہہ سکتے ہیں ۔اسی قانون کے مطابق اس کائنات کی ہرمخلوق ،ایک خاص فطرت پرتخلیق کی گئی ہےاور اسی طے شدہ قانون کے تحت اپنے فرائض کی بجاآوری میں مصروف ہے ۔مثلاً سورج ازل سے روشنی اور حرارت کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے، دریا رواں دواں ہیں، آگ نے کبھی جلانے سے انکار نہیں کیااوریہی حال حیوانات اور فرشتوں کا بھی ہےکہ جو اپنے طبعی اور جبلی الہامات کے تحت کام کرتے ہیں اور اپنے مخصوص دائرہ عمل میں سرگرم ہیں۔
جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے تو انسانوں کے اعمال کی انجام دہی میں اس کے علم اور ارادے کی قوت بھی کارفرما ہوتی ہےکیونکہ انسان اپنی عقل کو استعمال میں لا کر علوم سیکھتا ہے اور پھر اپنے قلب کی قوت ارادی کو عمل میں لاکر مختلف اعمال اختیار کرتا ہے۔انسان کے انہی امتیازی اوصاف کی بنیاد پراللہ تعالی کےقائم کردہ نظم کائنات میں یہ لازم ہوا کہ اسے صحیح علم سے روشناس کرایا جائےتاکہ وہ درست راستےکا شعور حاصل کرکے اس پر گامزن ہوسکے۔گویاانسانوں کےلیے ایک علمی اور عملی رہنمائی کی طلب اس کی فطرت میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اللہ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے انبیا علیہم السلام کا سلسلہ قائم فرمایااور انھیں آسمانی کتب سے نوازا،تاکہ انسان اپنی نفسانی خواہشات سے مغلوب اورشیطان کے بہکاوے میں آکر افکار فاسدہ اور اعمال سیئہ کا شکار ہونے سے بچ جائے۔
شیطانی قوتوں کا یہی بنیادی ہتھیار ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کو بہکا کر انھیں نفسانی خواہشات کی تکمیل کا خوگر بنا دیتی ہیں۔ جس کا نتیجہ سماجی طور پر انفرادیت پسندی اورخود پرستی کی شکل میں نکلتا ہے۔ یہیں سے اخلاقی امراض اور سماجی جرائم کا آغاز ہوتا ہے۔معاشرے میں انسانوں کے درمیان نفرت ہو یا مفاد پرستانہ سوچ اور اس کے نتیجے میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے انسانوں پر جبر مسلط کر دینا، یہ سب انفرادیت پسندی ہی کے عملی مظاہر ہیں۔
اسی طرح شیطانی قوتوں کاایک دوسرا وار یہ ہوتا ہےکہ انسانی معاشرے میں موجود فطری تنوع مثلا زبان، نسل، قوم یا علاقائی شناختوں کو آپس میں باہم دست و گریباں کردیا جائےاور انھیں تضادات میں الجھا کر اپنے سفلی مفادات کی تکمیل کا اہتمام کیا جائے۔دنیا میں شیطان کے نمائندہ فرعونی نظاموں کا طرز عمل اسی بدترین عمل کی ایک مثال ہے۔
دین اسلام ،دین انسانیت ہونے کے اعتبار سے انسانیت کو ایک ناقابل تقسیم اکائی مانتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا گیا ہے( یہاں کنبے سے لفظی معنی مراد نہیں ، یہ لفظ حقوق کی بجاآوری کے اعتبار سے ہے)۔اس لیے انسانی زندگی کی ضرورتوں سے جڑا ہر عمل ، خواہ وہ قدرتی وسائل سے استفادہ ہو یا ایک باسہولت اور پرآسائش زندگی گزارنا ، یہ ہر انسان کا بنیادی حق قرار پاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسان جسمانی و باطنی اعتبار سے ایک جیسے ہیں۔کوئی انسان گورا ہو یا کالا، کوئی بھی زبان بولنےوالا یا کسی بھی جغرافیے سے تعلق رکھنے والا ہوبھوک ، پیاس، آرام دہ زندگی، اپنی جان ومال اور عزت کا تحفظ اور یکساں حقوق پہ مبنی طرز زندگی چاہتا ہے۔اسی طرح اس کائنات میں اللہ نے جتنے بھی وسائل پیداکیے،خواہ وہ اناج ہو یا معدنی ذخائر، ان کو کام میں لا کر انسانی احتیاجات کی تکمیل ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔اسی طرح جسم انسانی کے طبعی عوامل مثلاً خوراک سے استفادہ، جسم کا بدلتے موسموں کے مطابق ردعمل ،یہاں تک کہ مختلف مسائل و مشکلات کو حل کرنےکے طریقے ڈھونڈنے وغیرہ میں بھی، ظاہری اختلافات کے باوجود کم وبیش یکسانیت پائی جاتی ہے۔
یہی وجہ کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں نےہردور میں اُن شیطان صفت اور انسانیت دشمن گروہوں کے قائم کردہ نظاموں کے خلاف بھرپور جدوجہد کی، جنھوں نے مختلف ادوار میں اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہو کرتمام وسائل پر قبضہ کرلیاتھااور دیگر انسانوں کو ان وسائل سے محروم کر کے انھیں اپنا غلام بنا لیاتھا۔اسی لیے حضرات انبیاؑنے اپنے اپنے دور میں اس محروم انسانیت کو وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلائی۔خود حضور نبی اکرم ﷺ نے خالصتاً انسانی بنیادوں پر تشکیل معاشرہ کا عمل اختیار فرمایا۔آپﷺکی جدوجہد کے نتیجے میں جو پہلی سوسائٹی مدینہ منورہ میں قائم ہوئی، اس کا بنیادی مقصد ہی بلا تفریق ،رنگ،نسل اور مذہب تکریم انسانیت اور انھیں معاشی حقوق کی فراہمی تھا۔یہی وجہ ہے اس ریاستی نظام کی تشکیل اور اس کے سیاسی و معاشی ثمرات کے حصول میں مہاجرین وانصار کے ساتھ ساتھ مدینہ کے غیر مسلم قبائل بھی یکساں طور پر شریک رہے۔یاد رہنا چاہیے کہ قرآن حکیم کی انسانیت نواز فکر پر جو انقلاب آپﷺ نے برپا کیا تھا ، دنیائے انسانیت اس کے ثمرات سے کم و بیش بارہ سوسال تک بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب یکساں طور پر مستفید ہوتی رہی۔
آج دنیا میں وسائل کی ہرگز کمی نہیں لیکن دنیا پر ایک دفعہ پھر نفسانی خواہشات کے اسیراورانسان نما شیطانوں کے قائم کردہ عالمی سرمایہ داری نظام کا تسلط ہے۔ان سامراجی طاقتوں نے ،ہمارے جیسے معاشروں میں، اپنے آلہ کار طبقات کے ذریعے نفرت و انتشار کی تخم ریزی بھی اسی لیے کی ہے کہ انسانیت ظاہری اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الجھتی رہے اور ان ظالمانہ طبقات کی سفلی خواہشات کی تکمیل ہوتی رہے۔ دنیا کے اکثریتی علاقوں پر مسلط نظام سرمایہ داری نے آج دنیا بھرکے وسائل پر قبضہ کرکے انسانیت کو ان سے محروم کررکھا ہےاور اسی مقصد کے لیے دنیا کی اقوام میں جھگڑے پیدا کرکے انھیں معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کردیا گیا ہے اس طرح ان ممالک کو مستقل طور پر اپنا دست نگر رکھنے کا مکروہ دھندہ بھی گزشتہ دو ڈھائی سو سال سے پورے زوروشور سے جاری ہے۔
آج کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ اُس دین اسلام کا تعارف دنیا کے سامنے رکھا جائے جو حقیقی معنوں میں دین ِانسانیت بھی ہےاور انسانی تقاضوں کی تکمیل کی ایک شاندار تاریخ کا حامل بھی ۔اس لیےآج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دینِ اسلام کی انسانیت دوست تعلیمات کا شعور عام کیا جائے اور اس کے مطابق عملی سوسائٹی کی تشکیل کے لیے اسوہ پیغمبر ﷺکو مشعل راہ بنا کر دین کا عادلانہ نظام عملی طور پر قائم کیا جائے تاکہ انسانیت پر ظلم و بربریت اور انسانیت دشمنی کی مسلط اس تاریک رات کاخاتمہ ہو اور انسانیت، دین اسلام کی حقیقی سلامتی سے منور ہو سکے۔