اشاعت اسلام میں صوفیاء کرام کا کردار (سیاسی، سماجی اور معاشی حوالے سے)
بر عظیم پاک و ہند میں اشاعت اسلام میں صوفیاء اکرام کا کردار ایک سیاسی، سماجی اور اقتصادی اہمیت کا حامل ہے
اشاعت اسلام میں صوفیاء کرام کا کردار (سیاسی، سماجی اور معاشی حوالے سے)
تحریر : انجنئیر طلحہ علیم ۔ لاہور
اِنسانیت کی معراج اُس خدائے بزرگ و برتر کی رسائی ہے جو اِس کائنات کا خالق اور اسے درجہ کمال تک پہنچانے والا ہے. کائنات کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی کامل صفات کا مظہر ہے. انسانیت کو اپنی معرفت سے آشنا کروانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا جو خاتم النبیین حضرتِ اقدس محمد صل اللہ علیہ والہ و سلم پر ختم ہوا. پیغامِ الٰہی کو اگلے دور کے لوگوں میں منتقل کرنے کے لیے جماعتِ صحابہ، اولیاء اللہ، صدیقین اور صوفیاء کرام کا مجاہدانہ کردار نمایاں ہے. جنہوں نے اسلام کے عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام کو ظلم کے خلاف پوری دنیا میں روشناس کروایا.
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری 1166ء میں ہندوستان تشریف لائے اور اجمیر کو اپنا مرکز رشد و ہدایت بنایا. ہندوؤں کے وہ نچلے اور اچھوت طبقات جنہیں معاشرے میں کوئی حیثیت حاصل نہ تھی آپ نے انہیں اسلام کے عادلانہ نظام سے متعارف کروایا. جس کی بدولت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے. 1193ء میں سلطان محمد غوری جب ہندوستان آیا تو اُس کا مقابلہ والئ ہند رائے پتھور سے ہوا. رائے پتھور زندہ گرفتار ہوا اور اس سے حکومت بھی چھن گئی. یہ امر اُس دعا کا منظر نامہ ہے جو حضرت معین الدین نے کی تھی کہ "پتھور کو ہم زندہ گرفتار کریں گے اور اسے سزا دیں گے".
ہندوستان کے مرکز دہلی میں خواجہ بختیار کاکی نے رشد و ہدایت کا سلسلہ عام کیا. سلطان التمش آپ کا بہت معتقد تھا. چشتیہ سلسلے کے مشہور بزرگ بابا فرید نے پاکپتن کو فیضان بخشا. بے حرصی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ سلطان ناصر الدین محمود نے اپنے نائب غیاث الدین بلبن کو بابا صاحب کی خدمت میں زرِ نقد اور چار دیہات کا جاگیر نامہ بھیجا مگر آپ نے وہ نقدی لوگوں میں تقسیم کر دی اور جاگیر نامہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ "اس کے دوسرے طالب بہت ہیں". آپ کے زہد و تقویٰ اور انسان دوستی کے سبب مغربی پنجاب کے بڑے بڑے قبائل جن میں سیال، راجپوت، وٹو وغیرہ شامل ہیں آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے.
بابا فرید کے مرید اور فوائد الفواد کے مصنف حضرت نظام الدین اولیاء نے دہلی میں بیٹھ کر اشاعتِ اسلام کا ایسا نظام قائم کیا جو گجرات، دکن اور بنگال تک پھیلا. فتوح السلاطین میں عصامی نے عہد محمد تغلق میں دہلی کی بربادی کے تین اسباب لکھے ہیں:ان میں سے ایک سبب حضرت نظام الدین کے سایہ عاطفت اور اُن کے فیض سے محروم ہونا ہے.
صوفیا کی حقیقت پسندی اور انسان دوستی اس سے بھی سمجھ آتی ہے کہ ایک مرتبہ فیروز تغلق کے وزیر جان تلنگی نے حضرت چراغ دہلی سے عبادت و ریاضت کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ : تم وزیر مملکت ہو تمہاری عبادت یہی ہے کہ حاجت مندوں کی حاجت روائی میں انتہائی کوشش کرو اور اپنا کام اس طرح کرو کہ اسے ہی عبادت سمجھو.
ملتان اور سندھ میں قرامطہ فرقے کے خلاف اشاعت اسلام کا بیڑہ جن خدا شناس اور انسان دوست لوگوں نے اٹھایا اٌن میں حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی اور اُن کے رفقائے کار سر فہرست ہیں. اشاعتِ اسلام کے ساتھ ساتھ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی نے عامہ خلائق کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے زراعت اور تجارت کو ترقیاتی کاموں دی، نہریں کھدوائیں اور جنگلات کی آباد کاری سے تہذیبِ اسلام کی جڑ مضبوط کی. آپ کا سیاسی ذوق بھی دلچسپی سے خالی نہیں. ناصر الدین قباچہ(جو اُن دنوں ملتان کا صوبیدار تھا) کی بغاوت جس سے مسلمانوں کے خون بہنے کا ڈر تھا حضرت نے بادشاہ شمس الدین التمش کو قباچہ کے خوفناک منصوبے کی اطلاع دی. بادشاہ نے قباچہ کا تعاقب کیا اور قباچہ دریائے سندھ میں ڈوب کر مر گیا. 1257ء میں منگول ملتان میں داخل ہوئے تو حضرت نے ایک لاکھ درہم ادا کر کے اہلِ شہر کو خون کی ہولی سے بچایا.
سلطان محمد بن تغلق کے خلاف کشلو خان نے جب بغاوت کی تو سلطان نے حکم دیا کہ اہلِ ملتان کے خون سے نہریں بہادو تو شیخ رکن الدین ننگے پاؤں چل کر سلطان کے پاس گئے اور اہلِ شہر کی جانیں بچائیں.
سہروردی سلسلے کے ایک بزرگ حضرت مخدوم جہانیاں نے سلطان فیروز شاہ تغلق اور سمہ خاندان کے درمیان مصالحت کروائی اور جنگ کے خطرے کو ختم کر دیا. حضرت مخدوم کے پاس جب فیروز شاہ حاضری دیتا تو آپ اسے عوام الناس کی حاجات کی فہرست تھما دیتے جس پر غور و خوض کرنے کے بعد فیروز شاہ لوگوں کی حاجات پوری کرتا.
مسٹر سٹیپلٹن بنگال میں صوفیاء کرام کے اشاعت اسلام کی بابت لکھتا ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے ان اولیائے مجاہد کا اسلام کی تاریخ میں وہی مرتبہ ہے جو صلیبی لڑائیوں کی تاریخ میں ٹمپلر مجاہدین کا تھا اگرچہ صوفیا کی اخلاقی حالت مسیحی بہادروں یعنی نائٹس سے کہیں بہتر تھی.
ملتان کاگزٹئیر سر ایڈورڈ میکلیگن نے مرتب کیا جس میں بزرگانِ کبار کی بدولت اسلام کے جمہوری اور عادلانہ سیاسی اور اقتصادی نظام کے قیام پر روشنی پڑتی ہے. ہندوؤں کے وہ قبائل جنہیں اچھوت قرار دے کر اُن کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی حیثیت ختم کر دی گئی تھی. صوفیاء کرام نے انہیں دینِ اسلام کے عادلانہ نظام سے متعارف کروایا اور اُن کو ترقی کے برابر مواقع فراہم کئے. ہندوؤں کے اچھوت طبقوں کو جنہیں چوہڑے کہا جاتا تھا معاشرے کے گٹھیا امور اُن کے لئے مختص تھے اٌن کا کوئی سیاسی اور سماجی مقام نہ تھا. یہی لوگ جب مسلمان ہوۓ تو مسلی کہلاۓ اور اب وہ شہروں میں جا کر دوسرے لوگوں کی طرح امورِ معاشیات میں حصہ لینے لگے. یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنے عادلانہ نظام کے سبب برعظیم پاک و ہند میں بڑی تیزی سے پھیلا.
اس سےیہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ برعظیم پاک و ہند میں اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اپنے عادلانہ اصولوں کی بنیاد پر پھیلا. مسلمان اِس خطے میں ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم تھے. محض تلوار کے دم پر اکثریتی غیر مسلم آبادی کو آٹھ سو سال تک زیرِ نگیں نہیں رکھا جا سکتا.
آج کل تو نہ ہمیں صوفیاء کا تعارف کروایا جاتا ہے تو محض رسمی اور کراماتی انداز میں اولیاء اللہ کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جدوجہد جس کے نتیجے میں اسلام کا عادلانہ نظام قائم ہوا ہمیں نہیں بتلایا جاتا. آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ تقلیدی اور انفرادی نقطہ نظر سے کرنے کے بجائے تخلیقی اور اجتماعیت کے اُن پہلوؤں سے کریں جو کسی بھی مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے ناگزیر ہیں.
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.