نظام کائنات اور معاشرتی اقدار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نظام کائنات اور معاشرتی اقدار

    آئیڈیل معاشرے کی اقدار وہی ہو سکتی ہیں،جن کی بنیاد پر کائنات کا ارتقائی سفر جاری ہے

    By Naqash Ali Published on Aug 06, 2019 Views 3716
    نظامِ کائنات اور معاشرتی اقدار
    تحریر: نقاش عباسی، لاہور

    فطری طور پر انسان اپنے اردگرد کے ماحول کے اثرات قبول کرتا ہے۔ یعنی انسانی اعمال و افکار اپنے ماحول سے مہمیز پاتے ہیں۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے سیکھتا ہے۔ اپنے ماحول کی نقل اُتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن نے اس بات کو ہابیل اور قابیل کی مثال سے سمجھایا ہے۔ 
    سوال یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول سے کیوں سیکھتا ہے؟ اپنے ماحول سے متاثر کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اور بناوٹ ہی اس انداز سے ہوئی ہے کہ وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر اور اس سے سیکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دراصل جسم انسانی سراسر ان ذرائع سے لیس ہے جن کے ذریعے سے علم حاصل کیا جاتا ہے۔  یہ ذرائع پانچ   ظاہری حواس یعنی  قوت سامعہ(کان)،  قوت لامسہ(ہاتھ)،قوت ذائقہ(زبان)،قوت شامّہ (ناک)،قوت باصرہ(آنکھ) اور پانچ باطنی حواس یعنی حس مشترک، قوت واہمہ، قوت خیال، قوت حافظہ اور قوت متصرفہ کہلاتے ہیں۔ 
    انسانی حواس جس نسبت سے اپنے ماحول کا اثر قبول کرتے ہیں ، اسی نسبت سے انسان کی کیفیات اور اس کے احساسات و جذبات میں تغیر و تبدل پیدا ہوتا ہے۔ انسانی عقل اپنے ماحول کا تجزیہ کرتی ہے اور ردِ عمل میں اعمال و افکار کا صدور ہوتا ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال موسمی تغیر و تبدل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بشری خواص کے ساتھ اس طرح پیدا فرمایا کہ وہ اثر قبول کرنے اور ردِ عمل کا اظہار کرنے یعنی سیکھنے سکھانے پر مجبور ہے۔ اور پھر انسان کا ماحول بھی اس کے اندر تجسس پیدا کرتا ہے۔
     کائنات کے نظام و ماحول سے سیکھنے کا مقصد و منتہا دراصل کائنات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی وہ ضرورت اور تقاضہ ہے، جو اس طرح پیدا ہوا کہ انسانی عقل کے پاس اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے اس کائناتی نظام کو شعوری  یا لاشعوری طور پر اپنا آئیڈیل تصور کرے۔ اسی لیے انسانی تاریخ کے ذہین افراد نے جب بھی معاشرتی تعمیر و تشکیل کا کوئی نظریہ پیش کیا تو اس نظریے میں کائنات سے ہم آہنگی کا اصول واضح طور پر نظر آیا۔ یعنی ان ذہین ترین افراد (فلاسفہ) نے اپنی فلسفیانہ بنیادوں کو کائناتی نظام سے ثابت کیا۔ 
    مثال کے طور پر صاحب نظریہ جدلیت نے جدلیت کو کائنات کے ماحول سے ثابت کیا۔اس کے خیال میں جدلیت کائنات کی بنیادی قدر ہے۔  یہی وہ بنیادی قدر ہے، جس کی بنیاد پر انسان ایک کامیاب معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق جب تک عمرانی قوانین و ضوابط کی بنیاد وہ جدلیت نہ ہو، جسے وہ کائنات کے نظام سے ثابت کرتے ہیں۔ اس وقت تک انسان معاشرتی تعمیر نہیں کرسکتا۔ Might is Right کا نظریہ بھی اسی طرح کی ایک مثال ہے۔ 
    مختلف نظریات کے حامل فلاسفہ نے اپنی اپنی نظر و رجحان کے مطابق کائناتی اقدار کا تعین کیا ہے۔ جن کے  غلط و درست ہونے میں آرا مختلف ہیں، مگر ان سب فلاسفہ میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ایسی اقدار کا تعین کیا جائے، جس کی بنیاد پر نظامِ کائنات سے ہم آہنگی ممکن ہو سکے۔ دوسرے الفاظ میں فلاسفہ  مجبور ہیں کہ عمرانی اقدار کو نظام کائنات سے اخذ کر کے انسانیت کے سامنے بطور نمونہ پیش کریں۔ 
    اسلام نے بھی اسی ہم آہنگی کے اصول کی بنیاد پر نظام تشکیل دیا ہے۔ چنانچہ تمام شرعی احکام اپنے ہر پہلو سے کائنات کی فطرت سے انسانی معاشرے کو ہم آہنگ کرتے ہیں۔ اسلام کا کوئی حکم اور کسی حکم کی کوئی حکمت ایسی نہیں، جو اس فطری نظام سے متصادم ہو۔ اسلام نے عدل کو اس کائنات کی بنیادی قدر قرار دیا ہے۔ چنانچہ اسلام کی رُو سے عمرانی اصول و ضوابط کی تہہ میں عدل کی اس  قدر کا کارفرما ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے قرآن پاک کی سورہ الرحمن میں ارشاد ہے: 
    و السّماءرفعہا و وضع المیزان۔“ 
    (آسمان کو اُس نے بلند کیا اور ترازو قائم کی) 
    یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ آسمان و زمین کی بنیادی قدر عدل ہے، جسے المیزان (ترازو) سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور اگلی ہی آیت میں یہ بھی فرما دیا: 
    الا تطغوا فی المیزان۔“ 
    (تاکہ تم تولنے میں زیادتی نہ کرو) 
    کہ  معاشرتی قوانین میں ترازو ( عدل سے) رو گردانی مت کرو۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ اسلام کس طرح  نظام کائنات سے ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور کائنات کی اقدار (جن کی بنیاد پر نظام کائنات چل رہا ہے) دراصل اللہ رب العزت کی صفات ہیں ۔جو قوانین کی روح اور انسان کے لیے جمالیات و اخلاقیات کا معیار بھی ہیں۔ کیونکہ  جس طرح یہ اقدار کائنات کی فطرت میں شامل ہیں، اسی طرح یہ اقدار انسانی فطرت بھی ہیں۔ چناں چہ کوئی بھی معاشرہ کسی بھی نظریے کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہو، ان اقدار کا منکر نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہوسکتاہے کہ کسی معاشرے میں قوانین طاقت کے نظریے کی بنیاد پر بنیں، مگر ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس معاشرے میں( برائے نام ہی سہی)عدالتی نظام نہ ہو۔ سچائی کی عزت نہ ہو، بلکہ ایسے معاشروں میں اگر ظلم بھی کیا جاتا ہے  تو وہ عدل اور سچائی جیسے خوش نما ناموں سے کیا جاتا ہے۔ 
     انسانی تاریخ کے وہ تمام نظریات جو انسانی معاشروں کی تنظیم و تعمیر کے دعوے دار ہیں، وہ کس حد تک درست یا غلط ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر معاشروں کی تشکیل  کی بنیاد ان سچی اقدار پر ہو ، جو ازلی اور ابدی ہیں، جن کی بنیاد پر کائنات کا ارتقائی سفر جاری ہے، ایسی اقدار جن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ  انسانی فطرت سے میل کھاتی ہیں اور کائنات سے فرد کو اور معاشرے کو ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تو درست ہیں۔ ورنہ ان پر دوبارہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وہ مقصد جس کے لیے ان اقدار کو معاشرتی قوانین و ضوابط کی  بنیاد  بنایا گیا تھا، وہ مقصد ابھی ادھورا ہے۔ اس لیے کہ  انسان اور کائنات ایک ہی مادے سے وجود میں آئے ہیں۔ ان دونوں میں ہر حوالے سے اشتراک کے ساتھ ایک اہم اشتراک یہ بھی ہے کہ دونوں کا خالق ایک ہے۔ یہی وہ اشتراک ہے، جو ہم آہنگی کا تقاضہ اور رجحان پیدا کرتا ہے۔ 
    اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی بقا کا راز یہ ہے کہ اُس کے عمرانی قوانین و ضوابط کی تہوں میں وہی اقدار (صفاتِ الٰہی) کارفرما ہوں، جن کی بنیاد پر نظامِ کائنات چل رہاہے۔ اور وہ اقدار جن کی بنیاد پر کائنات کا نظام چل رہا ہے وہ کم از کم اصولِ طاقت یا جدلیت تو کبھی بھی نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ انسان اور کائنات کی مجموعی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔ یہ دونوں غیر معتدل اور تخریب و انتشار سے بھرپور نتائج کی حامل ہیں، جو ارتقا کے سراسر خلاف عمل ہے۔ ان اقدار کی بنیاد پر قائم معاشروں میں ہمیں  عدمِ اعتدال اور جدلیاتی تخریب واضح نظر آتی ہے۔
    ‌انسانی معاشرے جب تک ان اقدار پر قائم نہیں ہوتے ،جن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نظام کائنات چلا رہا ہے ،اس وقت تک ایک آئیڈیل معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید دراصل ہمیں اسی بات کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم کائنات کی اقدار کو سمجھیں اور ان کی بنیاد پر اپنا معاشرہ قائم کریں۔ 
    Share via Whatsapp