دین اسلام؛ ایک جامع نظام حیات
دین اسلام؛ ایک جامع نظام حیات

دین اسلام؛ ایک جامع نظام حیات
تحریر: آفاق احمد ( آزاد ماسید ) قطر
دینی لغت اور کلام میں دو الفاظ عام استعمال میں آتے ہیں، مذہب اور دین۔
دین:
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات کی روشنی میں دین کی تعریف یوں کی ہے:
مختلف اقوام میں ان کے انبیائےکرام علیہم السلام کے ذریعے جو شریعتیں آئیں، ان کے چند اصول ایسے ہیں جو بنیادی ہیں، سب شریعتوں اور آسمانی کتب میں موجود ہیں، ان کے مجموعے کو دین کہا جاتا ہے۔ مثلاً، یہ نظریات و عقائد کہ ”اللہ ایک ہے“
” موت اور اس کے بعد حیات “،”انسانی اعمال کے نتائج اور ان پر سزا و جزا“، مختلف قسم کی نیکیاں اور ان کے حصول کا طریقہ کار جیسے عبادات وغیرہ (اقترابات، اللہ کا تقرب حاصل کرنا)، سماجی طرزِ زندگی کے اصولِ عدل، اجتماعیت کا قیام اور سماج دشمن اعمال و افعالِ بد و ظلم کا خاتمہ وغیرہ،(قرآنی شعور انقلاب، جلد دوم ص315)
یعنی دین ایک جامع اور مکمل تصورِ حیات کا نام ہے، جس میں انسانی معاشرے کی عبادات، روحانی، سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی زندگی کے بنیادی اصول شامل ہوتے ہیں۔
مذہب: (School of thought )
دینی تعلیمات کی روشنی میں سماج کے ایسے قوانین جن پر اجتماعی و اِنفرادی طور پر عمل کیا جائے، ان قوانین پر سماجی انتظامی ڈھانچہ تعمیر کیا جائے، اس کو مذہب کہا جاتا ہے۔ ایسے مذہبی قوانین جو سیاست، معیشت و سماج سے تعلق رکھتے ہوں انھیں فقہ بھی کہا جاتا ہے، جیسے فقہ حنفی، فقہ شافعی وغیرہ، اس میں اصولِ اخلاقیات، عبادات اور عقائد بھی آجاتے ہیں۔ لیکن مغربی اور مغرب زدہ دانش ور حضرات مذہب کی تعبیر ذاتی اعمال، عبادات و عقائد پر مشتمل نیکی کے اعمال کو انسان کا ذاتی مذہب قرار دے کر اس کو اجتماعیت سے کاٹ دیتے ہیں، چہ جائیکہ دین کے اجتماعی تصور کو وسیع تناظر میں سمجھ کر اپنائیں۔ ان کے بہ قول دین یا مذہب انسان کا ذاتی فعل ہے، اس پر عمل کرے یا نہ کرے اس کی اپنی مرضی ہے۔ جب کہ سیاست، معیشت، تعلیم، سماجیات، حکومتی قوانین و اعمال کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، یہ ان کی ناسمجھی یا مذہب دشمنی کا رویہ ہے۔
قوانین بنیادی اصولوں سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے، جس طرح اعمال کے نتائج تبدیل نہیں ہوتے، جب کہ قوانین دور گزرنے سے اور حالات میں تبدیلی کے نتیجے میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں، جب کہ اسلام ایک دین ( نظام ) ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔
ٱلۡیوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗا .(سورۃ المائدہ،3)
آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی، اور تمھارے لیے اسلام کو بہ طور دین پسند فرمایا۔
دین ایک مکمل نظام حیات ہے،جس میں زندگی گزارنے کے تمام اصولوں اور قوانین کو زیرنظر رکھا جاتا ہے۔ ایک مکمل نظام حیات جس میں انسان کی اِنفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی بھی شامل ہوجاتی ہے۔ دین انسان کو اِنفرادیت سے نکال کر اجتماعیت اور اجتماعیت کے تمام مسائل ( سیاسی ، سماجی ، معاشی اور ثقافتی ) کو حل کرنے کی ترغیب اور حکم دیتا ہے۔ دین سماجی نظم و ضبط کے تحت اجتماعیت سے ہم آہنگ زندگی کو فروغ دے کر اس کو با مقصد بنادیتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں ایک گھر، محلہ، شہر، صوبہ، ایک ملک اور پوری دنیا آجاتی ہے تو گھر کی طرح ملک کو چلانے کے لیے بھی ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک صالح اور کامل دینِ (نظام) اسلام دیا ہے ۔
خلاصہ کلام:
اسلام ایک مکمل نظام ہے اور یہ نظام مکمل طور پر نفاذ اور غلبہ چاہتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں ہمارے تمام سماجی ، معاشی اور معاشرتی مسائل حل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کو بہ طورِ دین (نظام) سمجھنے اور اس کے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!