تنازع کے حل کی چار ممکنہ جہات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تنازع کے حل کی چار ممکنہ جہات

    یہ مضمون تنازعہ کے چار ممکنہ حل (Lose-Lose, Win-Lose, Lose-Win, Win-Win) کو واضح کرتا ہے۔ بہترین حل وہی ہے جس میں دونوں فریق فائدے میں رہیں، یعنیWin-

    By محمد عارف Published on Jun 22, 2025 Views 308
    تنازع کے حل کی چار ممکنہ جہات 
    تحریر: محمدعارف۔ راولپنڈی

    جب دو افراد، معاشرے یا ممالک کے درمیان تنازعات (Conflicts) جنم لیتا ہے تو اس کا حل تلاش کرنے کے لیے عمومی طور پر چار ممکنہ راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 
    آئیے! ان چاروں جہات کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
    1۔ نہ خود جیتیں گے، نہ دوسرے کو جیتنے دیں (Lose-Lose)گے۔ 
    اس صورت میں دونوں فریق مسئلہ حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر تُل جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خود بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ ایسی مثالیں ہمیں خاندانوں میں جائیداد کے تنازعات میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں، جہاں بھائی بھائی کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ پنجابی محاورے میں اسے یوں کہا جاتا ہے:
    "نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے"
    یہ رویہ نہ صرف نقصان دہ، بلکہ معاشرتی انتشار کا باعث بھی بنتا ہے۔
    2۔ طاقت ور جیتے، کمزور ہارے (Win-Lose)
    اس انداز میں طاقت ور فریق اپنی حیثیت کا فائدہ اُٹھا کر کمزور کو اپنی شرائط ماننے پر مجبور کرتا ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر مسئلہ حل ہوجاتا ہے، لیکن درحقیقت کمزور فریق کے دل میں انتقام کا بیج بو دیا جاتا ہے، جو وقت کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ یہ ایک غیرمستحکم حل ہوتا ہے، کیوں کہ جیسے ہی کمزور فریق طاقت حاصل کرتا ہے، وہ بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔
    پاکستانی معاشرے میں یہ طرزِعمل عام ہے، جہاں "Might is Right" کا اصول رائج ہے۔ یہی طرزِعمل اکثر انقلابات کی بنیاد بنتا ہے، جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب عوام پر ظلم حد سے بڑھتا ہے تو وہ اجتماعی ردِعمل سے انقلاب برپا کرتے ہیں۔
    3۔ اپنا حق چھوڑ دینا (Lose-Win)
    بعض اوقات تنازعات میں ایک فریق دانستہ طور پر پیچھے ہٹ جاتا ہے، تاکہ دوسروں کو خوش رکھا جا سکے۔ اس صورت میں دو ممکنہ حالات پیدا ہوتے ہیں:
    (الف) اگر چھوڑنے والا فریق اتنا مستحکم ہو کہ اُسے اس نقصان سے فرق نہ پڑے، تو یہ رویہ انتہائی مثبت اور قربانی پر مبنی ہوتا ہے۔
    (ب) لیکن اگر وہ کمزور ہو اور اپنے حقوق کی قربانی دینے سے اُس کے گھرانے پر منفی اَثرات پڑیں، تو یہ ایک خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اس کا انجام عموماً آئندہ نسلوں میں انتقامی رویوں کی صورت میں نکلتا ہے، جوکہ مستقبل میں Win-Lose کی طرف پلٹ سکتا ہے۔
    لہٰذا کسی ایسے فیصلے سے گریز کرنا بہتر ہے جو وقتی اَمن کے بدلے مستقبل میں نفرت اور بدلہ کا باعث بنے۔ 
    4۔ دونوں کی کامیابی (Win-Win)
    یہ اعلیٰ اور دانش مندانہ حکمتِ عملی ہے، جس میں دونوں فریق فائدے میں رہتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب دونوں جانب باشعور قیادت، خلوصِ نیت اور مسئلہ حل کرنے کی سنجیدہ کوشش موجود ہو۔
    اگر خود فریقین میں یہ صلاحیت نہ ہو تو کسی تیسرے منصف مزاج فرد یا ثالث کی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف تنازع پُرامن انداز میں ختم ہوتا ہے، بلکہ وقت، توانائی اور رشتے بھی بچائے جا سکتے ہیں۔
    اس کی بہترین مثال ہمیں حجرِ اسود کی تنصیب کے تاریخی واقعے میں ملتی ہے۔ جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوئی تو قریش کے سردار اس بات پر جھگڑنے لگے کہ حجرِ اسود کو کون نصب کرے گا۔ طے پایا کہ جو شخص صبح سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا، وہ فیصلہ کرے گا۔
    اتفاق سے نبی کریم ﷺ سب سے پہلے تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے تمام سرداروں کی عزت اور کردار کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک چادر منگوائی، اس پر حجرِ اسود رکھا اور تمام سرداروں سے کہا کہ چادر کو مل کر اُٹھائیں۔ جب پتھر مقام پر پہنچا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اسے نصب فرما دیا۔
    یہ تھا Win-Win حل: نہ کوئی ہارا، نہ کسی کی اَنا مجروح ہوئی اور سب راضی ہو گئے۔
    نتیجہ
    تنازعات زندگی کا حصہ ہیں، لیکن اس کو کس انداز سے حل کیا جاتا ہے، یہی ایک باشعور فرد، معاشرہ یا قوم کی پہچان ہے۔
    Lose-Lose تباہی ہے،
    Win-Lose انتقامی بیج،
    Lose-Win وقتی سکون، مگر ممکنہ بگاڑ،
    جب کہ
    Win-Win فلاح، ترقی اور دائمی اَمن کی علامت ہے۔
    ہمیں بہ طور فرد، راہ نما یا قوم، Win-Win حل کو اپنانا سیکھنا ہوگا، تاکہ معاشرتی ہم آہنگی، باہمی احترام اور دیرپا امن کو فروغ دیا جا سکے۔
    Share via Whatsapp