اسلام اور سائنس
حالیہ برسوں میں رویت ہلال پر ہونے والی بحث اور گذشتہ صدی سے مذہب اور سائنس کو مقابل لانے کی سعی کا جائزہ۔
اسلام اور سائنس
تحریر : توصیف افتخار ، لاہور
مضمون نگار مذہبی حوالے سے ابھی طفلِ مکتب ہے اور سائنسی علوم میں بھی مبتدی کی حیثیت ہے لہذٰا قارئین کی طرف سے حوصلہ افزائی کی توقع سے لکھ رہا ہوں ۔
مضمون کا محرک
حالیہ دنوں میں رؤیت ہلال پر ہونے والی مباحث ، نیز گزشتہ صدی سے مذہب اور سائنس کو مقابل کھڑا کرنے کی سعی اس مضمون کا محرک ہے ۔
یورپ نے جس رجعت پسند مذہبیت کا رَد کیا وہ تحریف شدہ مذہبیت ہے ۔اللہ وحدہ لا شریک کے نازل کردہ مذہب کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے جو کچھ بھی وحی کے ذیل میں نازل کیا وہ حق اور انسانیت کی ترقی کا ضامن تھا ۔
مذہب و سائنس کی سوچ کے پانچ گروہ
وطنِ عزیز میں اس تناظر کے پانچ گروہ نظر آتے ہیں ۔
1- دین کے علم برداروں کا گروہ جو رجعت پسند مذہبی نظریات کا حامل ہے ، ہر دور کی ایجادات و انکشافات کو نہ صرف ردکرتا رہتا ہے بلکہ ان کے خلاف فتوے بھی دیتا ہے۔
2- بہت سے اہلِ مذہب سائنسی میدان میں ہونے والی پیش رفت اور انکشافات کے لیے قرآنی آیات سے دلائل مہیا کر کے مذہب کی بالادستی و حقانیت ثابت کرتے ہیں ۔
3- سائنس کے علم بردار جدیدیت اور تحقیق کا دامن تھامے ، مذہب کو زمانہ حال کے مسائل کا حل پیش کرنے کے قابل نہیں سمجھتے اور مذہبی اقدار پر عمل کو قدامت پرستی سمجھتے ہیں ، یہ طبقہ عملی طور پر مذہب کو خیرباد کہہ چکا ہے ۔
4- جو مذہب سے ناطہ رکھنا بھی چاہتا ہے اور جدیدیت سے مرعوب ہو کر اس کے نظریات و افکار کو مذہب میں ضم کرنا چاہتا ہے ۔
5- یہ علماءِحق کا طبقہ ہے جس نے ہر دور میں ان دو دائروں کو آپس میں مدغم نہیں ہونے دیا بلکہ ایک معتدل راہ اختیار کی ۔
میں اسی حلقہ فکر کےحوالےسے بات کروں گا ۔
مذہب اور سائنس کا دائرہ عمل الگ الگ ہے لیکن باہم متصادم نہیں ۔ مذہب کےتمام سوتے یقین کے بیج سے پھوٹتے ہیں جب کہ سائنس کی عمارت تشکیک ( شک اور شک پیدا کرنے ) کی بنیادوں پر کھڑی ہے ۔ یقین کا تعلق قلب اور وجدان کے ساتھ ہے جب کہ سائنس کا تعلق
حواس اور قوت عقلیہ کے ساتھ ہے ۔ جیسے وجدانی قوتوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا ویسے ہی عقلی اور حواس کی قوتوں کا انکار ممکن نہیں ۔ انہی تمام قوتوں پر انسانی بقاء کا دارومدار ہے ۔ انسان میں یہ قوتیں ایک دوسرے کا متضاد نہیں بلکہ سائنسی زبان میں ایک دوسرے کا کمپلیمنٹ ہیں ۔
سائنس میں کمپلیمنٹ کا مطلب :
ایک ایسی چیز جو کسی دوسری چیز کو مکمل کرتی ہے ۔ تشکیک محض سے انسان آگے نہیں بڑھ سکتا بلکہ ہر سائنسی علم کی بنیاد میں کچھ مفروضے ہیں جن کو بلا حجت تسلیم کر کے اس سائنسی علم کو آگے بڑھایا جا تا ہے ۔ اسی طرح یقین کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ تحقیق کا دروازہ بند کر دیا جائے ۔ جیسےسائنس میں تحقیق مسلمات کی اساس پر آگے بڑھتی ہے۔اسی طرح حقیقی مذہب میں بھی تحقیقات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔
اسی لیے اللہ تعالٰی قرآن حکیم میں مخلوقات میں غور و فکر کی خود دعوت دیتے ہیں ۔ ایک مسلمان مادی قوتوں کے پیچھے موجود جب ایک نظامِ غیب پر ایمان لاتا ہے تو اس ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کی تحقیق کا دائرہ طبیعات اور ما بعد الطبیعات دونوں ہوں ۔ لہذا دین اسلام کوماننے والا مادیین کی مرعوبیت سے بالا تر ہوکر تحقیق کے میدان میں اترتا ہے ۔ اسی لیے یونانی فلسفہ جہاں رک چکا تھا اسے درست سمت دے کر انسانیت کے لیے ایجادات کا جہاں کھولنے کا آغاز مسلم ادوارِ حکومت ہی میں ہوا ۔
وہ علماء جنہوں نے سائنس اور اس کی ایجادات پر فتاوٰی صادر کیے اور مخالفت کی ان کے لیے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی روح کی نمائندگی کا حق ادا نہ کر سکے ۔ علم تمام انسانوں کی میراث ہے،امام شاہ ولی اللہ دہلوی ان حکماء کو جو طبیعی قوانین پر غورو فکر کرتے ہیں اور انسانوں کی بھلائی کے لیے نت نئی ایجادات کرتے ہیں ، ایک درجہ میں انسانیت کے محسن سمجھتے ہیں ۔
ان ایجادات کا استعمال انسانیت کے حق میں کرناانسانی معاشروں پر غالب نظامِ سیاست کی ذمہ داری ہے۔اگر نظامِ ظلم قائم ہو گا تو یہی ایجادات انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال ہوں گی ، اگر نظامِ عدل غالب ہو گا تو انہی ایجادات سے انسانیت کی ترقی کا کام لیا جائے گا ۔ غیر محقق اور مفاد پرست ذہنیت کا نتیجہ تنگ نظری یا آلہ کاری کی شکل میں نکلتا ہے ۔
وہ علماء یا مذہبی ذہن جو سائنس کے انکشافات و نظریات کو مذہب کا لباس پہنا کر ، منوانا چاہتے ہیں تو یہ غلط روش ہے ۔ وہ سائنس کے بنیادی فلسفہِ شک کو بھول رہے ہیں ۔
" سائنسی عمل کی حقیقت "
سائنس ایک مفروضہ یا ماڈل بناتی ہے پھر اس پر بذریعہ مشاہدہ ڈیٹا اکھٹا کرتی ہے ۔ اگر وہ ڈیٹا چند سوالات کے درست جوابات مہیا کر دے تو اس مفروضہ کو ایک تھیوری کی شکل دے دی جاتی ہے ۔
" سائنسی افکار کی اصلیت "
سائنسی ماہرین جانتے ہیں کہ وہ تھیوری چند عوامل کی تو درست تشریح کر رہی ہوتی ہے مگر بہت سے عوامل کا جواب نہیں دے رہی ہوتی ۔ یہ بات سائنسی ماہرین میں مانی جاتی ہے جب کہ سائنسی حلقے خود اس تھیوری کی حقانیت پر شاکی ہوتے ہیں اور اپنی تحقیق مزید بہتر ماڈلز اور مفروضوں کے لیے جاری رکھتے ہیں ۔ جیسے نیوٹن نے اپنےسے قبل کےطبیعاتی نظریات کو رد کیا اور ایک دور میں نیوٹن کے نظریات کا شہرہ رہالیکن آئن سٹائن نےان نظریات کو بدل دیا ۔ اور اب کوانٹم فزکس( ما بعد الطبیعیات ) نئے زاویوں سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ اب اگر کسی دور کے سائنسی نظریات کے لیے آپ قرآنِ حکیم سے دلائل لائیں گے تو پہلی غلطی
یہ ہے کہ قرآن کا موضوع انسانی معاشرہ ہے نہ کہ محدود طبیعاتی سائنسی نظریات پیش کرنا ۔
دوسری غلطی سائنسی نظریات میں تو ترمیم و تنسیخ کی گنجائش ہے ، شک موجود ہوتا ہے اگر کل کو وہ نظریات رَد ہوں گے جیسا کہ ہوتے رہتے ہیں تو کیا آپ متعلقہ آیت پر سوال اٹھا دیں گے ۔ لہذا یہ طریقہ استدلال غلط ہے ۔
قرآنِ حکیم نے تو تحقیق اور غور و فکر کا راستہ کھول دیا ہے اور دین اسلام کو سائنس سے کوئی تعارض بھی نہیں ۔
" تیسرے گروہ کی خامی "
جو سائنس کو ہر دکھ کا نہ صرف مداوا بلکہ ملجا و ماوا سمجھتا ہے اور مذہب کو پرانے وقتوں کی کہانیاں سمجھتا ہے ۔ یہ لوگ نام نہاد آزاد خیال بلکہ روشن خیال اور جدت پسند کہلوانا پسند کرتے ہیں ، وہ میوزک کو تو روح کی غذا گردانتے ہیں لیکن جب مذہب اور روحانیات کی بات آئے تو سرے سے روح کے ہی منکر ہو جا ئیں گے ۔
ان کا وجود جب تقاضا کرتا ہے کسی انتہائی طاقتور کے سامنے سر جھکانے کا تو وہ سائنس اور مادیت کے بتوں کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ ان کا واسطہ اسلام کے ان رجعت پسند مذہبی طبقات سے پڑا ہے جنہوں نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنے مفادات کے لیے کام کرنے والے علماءِ سو کو ہی سنا اور اسے ہی دینِ اسلام سمجھ کر دین کی حقیقی ضرورت کی سمجھ کو فراموش کر بیٹھے ۔
حقیقی مذہب تو سائنس کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے نہ کہ سائنس سے تعارض کرتا ہے ۔ لیکن ان لوگوں نے مغرب کی نقل میں مذہب کو چھوڑ کر یہ سمجھا کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ دور ہو گئی ہے ۔ درحقیقت مغرب نے بھی رجعت پسند مذہبی گروہوں کو خیرباد کہا اور ان لوگوں نے بھی ۔ لیکن اس گروہ کے لوگوں نے اس دورِ زوال میں قرآن کی طرف رجوع نہ کیا ، اسلام کے حقیقی پیغام کی تحقیق نہ کی ۔ یہ لوگ یا تو تحقیقی مزاج ہی نہیں رکھتے تھے اور آسان راستہ ، اختیار کرنا چاہتے تھے ۔ نتیجۃً حقیقی مذہبی شعور کو چھوڑ کر انہوں نے دنیا میں راہبری کے بجائے مغرب کی کاسہ لیسی کو طرزِ زندگی بنا لیا ۔ کیونکہ اس نام نہاد جدیدیت کا علمبردار تو مغرب ہے اور آپ اس کے حق میں نعرہ بلند کرنے والے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔ جسے مغربی جدیدیت کہے گی اپنا لو ! آپ اسے اپنا لیں گے جسے کہے گی چھوڑ دو آپ چھوڑ دیں گے ۔ دین اسلام اپنی ابتداء سے لے کر انسانیت کے اس عارضی محل یعنی مادی دنیا کے اختتام اور اس سے آگے تک کے تمام مسائل کا حل لے کر آیا ہے۔ دینِ اسلام ایسے فرزندانِ توحید سے بانجھ نہیں جو اس صنعتی دور کے مسائل کا حل نہ دے سکیں بلکہ علماءِ حق نے اپنا فریضہ ادا کیا اور اس آمدہ دور کے سیاسی ، معاشی اور فکری مسائل کا حل دینِ اسلام کو روشنی میں مرتب اور مدون کیا ۔ ضرورت تو یہ تھی کہ دور کے مسائل کا درست ادراک کیا جاتا، علماءِ حق اور رجعت پسند علماء میں امتیاز کیا جاتا ، علماءِ حق کی اتباع کی جاتی اور عصری تقاضوں کے مطابق اپنے کردار کا تعین کیا جاتا ۔ یہ کامیابی اور رہبری کا راستہ ہے مگر اس گروہ نے مرعوبیت کی راہ اپنائی ، چڑھتے سورج کو ہی پوجنا شروع کردیا اور مغرب زدہ ہو گئے ۔
" چوتھے گروہ کا نقص "
جو مذہب سے ناطہ جوڑ کر مذہب کا بھی میٹھا میٹھا حلوہ کھانا چاہتا ہے اور جدیدیت کا قائل ہو کر اس کی ہوس کاریوں کا بھی لطف اٹھانا چاہتا ہے ، یہ نعرہ بلند کرتا ہے کہ اسلام میں بہت گنجائش ہے اس میں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی مکمل صلاحیت ہے ، لہذا یہ گروہ مذہب میں نصوصِ قطعیہ کے خلاف جانے یا پھر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کرنے سے نہیں گھبراتا ۔ یہ دین اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح صرف چند رسومات کا مجموعہ سمجھتا ہے ۔ رسم تو زمانے اور ماحول کے اعتبار سے بدل جاتی ہے لہذا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طریقہ اپنایا اور یہ اسے بدل دیں ۔ دین کو ایک نظام کے طور پر سمجھنا ، اس کے احکامات کی درجہ بندی کرنا اس کا انہیں ادراک ہی نہیں ۔ درحقیقت لبادہ مذہب کا ہی اوڑھتے ہیں لیکن نمائندگی سائنس کی کرتے ہیں ۔ مذہب میں تحریف کو مذہب کی خدمت سمجھتے ہیں ۔ آج کے دور میں وہ طبقات جووباء کے خوف میں مبتلاء ہو کر مسجدوں میں صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنا جائز سمجھ رہے ہیں انہیں جائزہ لینا چاہیے کہ قرآن کی نصِ قطعی اقامت صلاۃ ہے اور اقامت کی تشریح میں شارع علیہ السلام نے حکم دیا ہے : مسجدوں میں نماز ادا کرو اور اپنی صفوں میں خلا نہ رکھو ، باجماعت نماز میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا اقامت صلاۃ میں سے ہے ۔ آج اس کی اہمیت ختم کر کے نئے احکامات جاری ہو گئے ۔ رجعت پسند ، مفاد پرست ، مذہبی طبقات اس میں پیش پیش ہیں ۔
" دینِ اسلام کے احکامات تیسیر کے اصول پر ہیں "
دینِ اسلام نے اپنے تمام احکامات جیسے روزہ کے اوقات یعنی سحری و افطاری کے تعین ، نمازوں کے وقت کے تعین یا اسی طرح رؤیت ہلال کے لیے یا مہینوں کے تعین کا ایسا طریقہ نہیں اپنایا جو کسی خا ص علم و مہارت کا محتاج ہو بلکہ اس کے لیے ایسا طریقہ اپنایا کہ عام آدمی بھی کسی پیچیدہ حساب و کتاب کے بغیر خود سے یا کسی عالم سے سیکھ کر دین کے احکامات پر چل سکے ۔ مثلاً قرآن کی آیت کے مطابق سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے جب آسمان پر سفیدی اور سیاہی کے درمیان فرق ہو سکے ۔ اسی طرح نمازوں کے اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طور پر متعین کئے کہ مکہ کا ایک اُمّی بھی سورج دیکھ کر اس کا تعین کر سکے،اسی طرح عید الفطر کےلیےچاند دیکھنے کا طریقہ رکھا کہ ایک عام دیہاتی بھی مہینے کے آغاز کا تعین کر سکے ۔ قمری مہینے اسی لیے زیادہ معتبر ہیں کہ اس میں علمی مہارت کے بغیر بھی دنوں اور مہینوں کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ شمسی سال میں ایک علمی مہارت چاہیے ، پہلی علمی مہارت تو لیپ ائیر کے تعین میں ہے ۔ دوسرا مسئلہ لیپ ائیر کے ذریعے زائد گھنٹے تو ایڈجسٹ ہو جا تے ہیں لیکن منٹوں اورسیکنڈوں کا فرق اکٹھا ہوتا جا تا ہے جسےماہرینِ فلکیات ہر چند سو سال بعد ایڈجسٹ کرنے کا سوچتے ہیں ۔ کتنے گھنٹے زائد ہوتے ہیں ، کتنے منٹ زائد ہوتے ہیں ، ان کو کیسے ایڈجسٹ کرنا ہے یہ عام آدمی کے بس کا کام نہیں اس کے لیے خاص علمی مہارت چاہیے۔ کیتھولک چرچ نے 1582ء میں کیلنڈر کو ماہرین کی مدد سے ری ایڈجسٹ کیا اور موجودہ کیلنڈر کا آغاز کیا ۔ آج اس کلینڈر میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو ایٹامک کیلنڈر کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے ۔ لیکن درحقیقت ایک عام آدمی کی ضرورت کا علم اس کی پہنچ سے دور کیا جا رہا ہے ۔ اس کا نقصان عمومی علم پر ایک طبقہ کی اجارہ داری ہے جو کہ دینِ اسلام کی حکمت کے خلاف ہے ۔ یہ نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں علمِ فلکیات نہیں تھا بلکہ علم نجوم کی ماہر سامی اقوام علم الاعداد اور علم نجوم پر ایسی حاوی تھیں کہ آج کے دور میں فلکیات کا نظری علم ابھی اس سے کوسوں دور ہے ۔ لیکن اسلام نے ایسے علوم کی بنیاد پر احکامات جاری نہیں کیے ۔ اس مصلحت کو سمجھے اور اسلام کے بنیادی نظامِ عمل کے اسرار جانے بغیر محض سائنس کی اندھی تقلید کر کے اپنے ماہ و ایام اور اوقاتِ کارکو ان حکومتوں کا اسیر بنانا جو اپنے مفادات کے لیے انسانی جانوں سے کھیلتی ہیں، کہاں کی عقلمندی ہے ؟ کیا تاریخ سے اس بات کی خبر نہیں ملتی کہ مکہ کے مشرک مذہبی معاشرہ میں قریش کے سیاسی نظام میں باقاعدہ ایک عہدہ ہوتا تھا جس کے امیر کا کام مہینوں کے نظام کو آگے پیچھے کر کے اس طرح موسمی یا معروضی اعتبار سے ترتیب دینا ہوتا تھا کہ ان کی تجارت کو نفع ملے ۔ یہ تب ہی ممکن تھا کہ جب عام آدمی کو اس دور کی حکومتی سائنس کے تابع کر دیا جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو اس قدر شفاف اور عام فہم بنایا کہ ہر انسان براہ راست اس میں شامل ہو سکے ۔ دین اسلام نے اصول ایسے مرتب کیے جو تمام انسانوں کے لیے ہیں اور وہ کسی ایک طبقہ کی علمی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دیتا ۔ لہذا دین کی حکمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ سائنس اور اسلام کی بحث میں الجھنے کی ۔ آج دینِ اسلام کا دنیا میں کہیں ظاہری نظام حکومت نہیں ہے ۔ تمام اسلامی ممالک کے نظام سامراجی ممالک کے تابع ہیں ایسے میں اچھائی کی امید لگانا عبث ہے ۔
سائنس و تحقیق ہمیشہ حکومتی سرپرستی میں آگے بڑھتی ہے ۔ سائنسدان خواہ اپنے آپ کو جتنا مرضی آزاد منش قرار دے مگر حکومتی فنڈز اس کی آزادی کا رخ متعین کرتے ہیں ۔ آج آپ تک ان سائنسدانوں کی آواز نہیں پہنچ پاتی جو اس دور میں کوروناسی متعلق ایک الگ موقف رکھتے ہیں ۔ آج یوٹیوب ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ایپ پر آپ کو اس بین الاقوامی نظام جبر کے جاری کردہ بیانیے کے خلاف آنے والی ہر ویڈیو پر پابندی لگی نظر آئے گی ۔ ویڈیوز غائب کر دی جاتی ہیں اور مخصوص خوف کا بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے یہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ سائنس اور سائنسدان بھی دنیا میں غالب نظام کا آلہ کار ہوتے ہیں ۔ کمپیوٹر پہلے پہل دوسری جنگ عظیم کے دوران استعمال ہوا یعنی اس ایجاد کا پہلا استعمال جنگی مقاصد کے لیے تھا اور کون نہیں جانتا کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم دنیا کی غاصب طاقتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی جنگیں تھیں ۔ انٹرنیٹ کا استعمال سرد جنگ کے دوران پیغام رسانی کے لیے امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفینس کے زیرِ اہتمام تھا۔ یعنی اس ایجاد کا استعمال بھی سامراجی مقاصد کے لیے تھا ۔ سائنسدان تو سائنس کی خدمت کرتا ہے مگر اس کا فائدہ غالب نظام اٹھاتا ہے ۔ ٹی وی ، کمپوٹر ، انٹرنیٹ اور موبائل کی ایجادات بذات خود تو برائی نہیں ان پر تو فتوٰی بنتا ہی نہیں اگر بنتا ہے تو اس نظام ظلم پر بنتا ہے جس نے دنیا پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرنے کے لیے ان ایجادات کا منفی استعمال کیا ۔ ان ایجادات کا مثبت استعمال انسانیت کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہےلہذا مخالفت ہو گی تو ان بیجا پروگراموں کی جو انسانوں میں بےجا نفسانی خواہشات کا بیج بوتے ہیں ، غیر ضروری اشیاء کو انسانی ضرورت بنا نے کے لیے انسانی نفسیات سے کھیلتے ہیں ۔ سرمائے کی ہوس پیدا کرتے ہیں یا سرمایہ دار کی آمدن بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ آج کی مصنوعی ذہانت کے تناظر میں ہونے والی ایجادات خواہ ڈرون کی شکل میں ہو یا خودکار ربورٹس کی شکل میں ان سے اولین استفادہ کرنے والے بلکہ ان کی تخلیق اور تحقیق پر فنڈنگ کرنے والے سامراجی ممالک کے فوجی ادارے ہیں ۔ اسی طرح آج کی جینیٹک انجینئیرنگ کا فائدہ میڈیکل سائنس کے ذریعہ عام انسانو ں تک تو کیا پہنچنا، البتہ لیب میں تیار کردہ وائرسز کے ذریعے انسانوں کو وباؤں کے خوف میں مبتلا کرکے اس سے فائدہ بڑے بڑے سامراجی ادارے اٹھا رہے ہیں ۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو خدائی اختیارات حاصل کرنے کی دعویدار ہیں ، فرعونی مزاج رکھتی ہیں ۔ یہ افراد ، واقعات ، ایام اور سن و سال پر مکمل گرفت چاہتی ہیں تاکہ ان کی سرمایہ کی ہوس گیری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اور نہ کوئی سر اٹھانے کا سوچے ۔ یہ قوتیں اس فکر کا سر کچلنا چاہتی ہیں جو ان کے اختیارات کے بجائے اللہ وحدہ لاشریک کے اختیارات کی نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس کا عملی نظام قائم کرنا چاہتی ہیں ۔ سائنسی تحقیق اعلٰی انسانی اقدار پر مبنی نظام کے تابع ہو تو انسانی فلاح ، خوشحالی اور امن کے لیے کردار ادا کر سکتی ہے۔ سائنس خود ایک آلہ ہے اس کے استعمال کنندہ پر منحصر ہے کہ فائدہ پہنچائے یا نقصان ۔
انسانوں تک مذہب اور سائنس دونوں کے حقیقی ثمرات پہنچانے کا واحد طریقہ دینِ حق کا غلبہ ہے ۔ یہ ان ابدی اور حقانی اصولوں کا غلبہ ہے جن کا مقصد تمام انسانوں میں بلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب عدل و انصاف کا نظام قا ئم کرنا ہے ۔ ایسے ماحول میں سائنس کا کردار ایسے معاون کا ہو گا جو انسانیت کا معاون بنے گی نہ کہ انسانیت کے لیے آزاری کا سبب بنے گی ۔ انسانوں میں باہمی محبت اور اجتماعیت پیدا کرنا اس نظام کا فکر و فلسفہ ہو گا نہ کہ سماجی دوری و انفرادیت پسندی ۔ اللہ تعالٰی ہمیں علمائے حق کی اتباع نصیب فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین