انسان کا مقصد تخلیق اور اس کے تقاضے
اللہ تعالی نے انسان کو کچھ جبلی صلاحیتیں عطاء کی ہے جس کی وجہ سے ان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کیا انسان کو ان صلاحیتوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔
انسان کا مقصد تخلیق اور اس کے تقاضے
تحریر: اصغر سورانی
خالقِ کائنات نےدنیا میں جتنے بھی اسباب پیداکیے ہیں ہر ایک میں کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور رکھا ہے کوئی بھی شے بے کار نہیں، لیکن یہ جاننے کی کوشش کی جا نی چاہیے کہ اس چیز کی تخلیق کس مقصد کےلیے ہوئی ہے۔جس مقصد اور ضرورت کو پورا کرنے کےلیے اسے پیدا کیا ہےاگر اس شےکو اسی مقصد کےلیے استعمال کیا جائے اور اس سے وہی فائدہ اٹھایا جائے تو پیدا کرنے والا بھی خوش ہوتا ہے۔مثال کے طورپر اگر ایک انجینئر سفری تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک بہترین گاڑی بنائے تاکہ لوگ اس میں سہولت کے ساتھ سفر کرسکیں اور سفری مشکلات سے بھی محفوظ ہوں۔ لیکن جب انجینئر صاحب یہ دیکھیں کہ اس کی بنائی گئی خوبصورت اور پرسکون گاڑی سے کوئی اور کام لیا جا رہا ہے مثلاً اس سے اینٹیں ڈھو نے کا کام لیا جا رہا ہے جو کسی ٹرالی سے بھی لیا جاسکتا تھا تو یقینا ً انجینئر کو دکھ ہوگا۔اب آتے ہیں انسان کے مقصد تخلیق کی طرف۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ " ہم نے انسان اور جنات کو محض اپنی بندگی کے لیےپیدا کیا ہے"
اس آیتِ کریمہ کے مطابق انسان کا مقصد تخلیق یہ ہے کہ وہ دنیاوی زندگی میں اپنے رب کی بندگی اختیار کرکے زندگی گزارےیعنی رب کا ہوکر رہ جائے اور کوئی ایسا کام سرانجام نہ دے جو بندگی کے برخلاف ہو۔ امام رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ دو چیزوں میں ہے۔
1۔ امر الہی کی تعظیم 2۔ خلقِ خدا پر شفقت ۔۔۔
بالفاظ دیگر خداپرستی اور انسان دوستی ۔
یعبدون کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو جبلی شعور یعنی عقل جیسی عظیم نعمت عطاء کی تاکہ وہ شعوری ادراک کے نتیجے میں چیزوں کوپرکھیں۔اما م شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح فرماتے ہیں کہ انسان کو باقی مخلوقات پر اس لیے فضلیت عطاکی گئی ہے کیوں کہ انسان کو تین خصوصیات ودیعت کی گئی ہیں جو باقی مخلوقات کو نہیں دی گئیں۔
1۔ مادہ ایجاد وتقلید، 2۔ مادہ حب ِ جمال یا نفاست پسندی ، 3۔ مادہ رائے کلی یا رفاہِ عامہ کا جذبہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کویہ غیر معمولی صلاحیتیں ودیعت کرکےاس کو زمین پر اپنا نائب مقرر کیا۔نائب یاخلیفہ کسے کہتے ہیں ؟ اس کو ایک تمثیل کے ساتھ واضح کرتے ہیں۔ جس طرح سکول یا کالج میں ایک وائس پرنسپل ہوتا ہے جو پرنسپل کی غیر موجودگی میں تعلیمی ادارے کو انہی اصولوں اور قواعد کے مطابق چلاتا ہے جو اس کے پرنسپل نے وضع کئے ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نائب/خلیفہ اس کو کہتے ہے جواپنے سےبالا ہستی کے Behalf یااعتماد پر امور سرانجام دے۔
اس بنا پہ بطورِ خلیفہ ، انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تعالی کے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں قانون سازی کریں اور ان کو زمین پر لاگو کریں تاکہ تمام انسانوں کو زندگی گزارنے کا سامان میسر ہواور مخلوق خدا کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔اب اگر انسان زندگی اس طرح بسر کرے تو ان کی زندگی مقصدِ تخلیق کے مطابق ہوگی اور بندگی کے تقاضے پورے ہوں گے۔انسان سے اس کاخالق بھی خوش ہوگا اور ان کی زندگی بھی باعث راحت و سکون ہوگی۔
خلاصہ کلام یہ ہےکہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی جبلی صلاحیتوں کو بروئےکار لائے اور اس معاشرے کو جنت نظیر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ایک ایسا معاشرہ تخلیق دے جس میں عدل کا بول بالا ہو ، ظلم کا نام و نشان نہ ہو، سیاسی لحاظ سے امن ہو اور معاشی لحاظ سے خوشحالی ہو۔ تب انسان کی بطورِ خلیفہ ذمہ داری احسن طریقے سے پوری ہوجائے گی اور یہ انسان یعبدون کے تقاضوں پر پورا اترجائے گا۔