افلاطون کی تمثیلِ غار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • افلاطون کی تمثیلِ غار

    افلاطون کی تمثیلِ غار آج بھی متعلقہ ہے جو کہ انسانی ذہن پر پڑنے والے فکری غلامی کے اثرات پے روشنی ڈالتی ہے۔

    By Shah Muhammad Published on Sep 09, 2020 Views 3531
    افلاطون کی تمثیلِ غار
    تحریر: شاہ محمد، گھوٹکی

    تمثیلِ غار جسے غار کی داستان بھی کہا جاتا ہے، قدیم یونانی فلاسفر افلاطون نے اپنی مقبول کتاب "ریاست" میں پیش کی تھی۔ اس میں ایک فرضی منظر نامہ بیان کیا گیا ہے جو انسانی ذہن پر پڑنے والے فکری غلامی کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔ 

    اس تمثیل میں افلاطون نے ایک ایسے غار کا ذکر کیا ہے جس میں کچھ لوگ پیدائش کے وقت سے قید ہیں، جنکے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے سر بھی اس انداز سے بندھے ہیں کہ وہ مسلسل غار کی صرف اندرونی دیوار کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے پیچھے غار کے اندر ایک آگ کا الاؤ روشن ہے اور اس الاؤ کے پیچھے غار کا دہانہ ہے۔ اس آگ کے الاؤ اور ان بندھے ہوئے انسانوں کے درمیاں کچھ لوگ ہاتھوں میں کچھ اشیاء اٹھائے گزرتے ہیں اور ان کے سائے غار کی دیوار پر پڑتے ہیں جنہیں وہ قیدی اپنی پیدائش کے وقت سے دیکھ رہے ہیں۔

    اپنی مخصوص کیفیت کی وجہ سے ان قیدیوں نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ یہ سائے واحد حقیقت ہیں اور یہی واحد سچائی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی زندگیاں محض انہی ٹمٹماتے سایوں کو دیکھتے ہوئے گزار دی ہیں۔ انہوں نے کبھی غار کے باہر موجود حقیقی زندگی نہیں دیکھی۔
    پھر ایک دن ان کا ایک ساتھی کسی طرح  خود کو زنجیروں سے آزاد کر لیتا ہے۔

     وہ پیچھے مڑ کا چلتا ہے تو آگ کے الاؤ اور ان گزرتے لوگوں کا ادراک کرتا ہے جن کے سائے دیوار پر وہ ساری عمر دیکھتا رہا، پھر وہ غار کے دہانے کی طرف بڑھتا ہے اور آخرکار غار سے باہر نکلتا ہے اور غار کے باہر موجود حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے اور اصل سچائی کو دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اب یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے باقی ساتھیوں کو زنجیروں سے آزاد کرائے اور انہیں قائل کرے کہ وہ تمام زندگی بیوقوف بنائے گئے ہیں اور اصل سچائی تو باہر موجود ہے۔ جب وہ غار کے اندر جاتا ہے اور انہیں سچائی کے متعلق قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قیدی اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا یقین کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ سایوں کی جعلی حقیقت کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ بے دردی سے اصل سچائی کی تردید کرتے ہیں، اپنے اس آزاد ساتھی کو دیوانہ و مجنون قرار دیتے ہیں اور اپنی کیفیت بدلنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

    افلاطون کی تمثیلِ غار ایک نہایت عمدہ تمثیلی بیان ہے جو ماڈرن زمانے کی فکری غلامی کے زیر سایہ نمو پانے والے سماجی رویوں کی نہایت عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ اس تمثیل کو اگر ہمارے آج کے معاشرے پہ لاگو کیا جائے تو غار کے قیدی ہماری اکثریت کی مانند ہیں جنہیں فکری آزادی، آزادانہ سوچ اور سماجی و سیاسی شعور سے محروم رکھا گیا ہے۔ غار کے سائے اس جعلی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں جسے نظام تعلیم، میڈیا، اور دیگر سماجی اداروں کے ذریعے ہماری قوم کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ لہذا وہ صرف ان باتوں پر یقین کرتے ہیں جو سرکاری بیانیے میں بتائی جاتی ہیں اور غور و فکر اور آزادانہ سوچ کا استعمال کر کے اصل سچائی تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ 

    وہ اس مصنوعی سچائی، فرسودہ رواج اور سماجی رسوم کے اس حد تک عادی ہو چکے کہ وہ ان زنجیروں کو محسوس تک نہیں کر پاتے جنہوں نے ان کے ذہنوں کو گھونٹ رکھا ہے۔ غار کا آزاد ہونے والا قیدی، آج کے ایک پر تجسس، باشعور اور تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو جب موجودہ رسم و رواج پر سوال اٹھاتا ہے اور لوگوں کو سچ سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہمارا معاشرہ اسے جھڑک کر خاموش کرا دیتا ہے۔

    ہمارے معاشرے کے لوگ واقعتاً افلاطون کے تمثیلی غار میں رہ رہے ہیں۔ ان کے ذہن سوچنے اور سوال کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں اور وہ نظام کی مسلط کردہ ذہنی غلامی کی تقدیر کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ اب یہ معاشرے کے بیدار، باشعور اور تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلی کے لئے خود کو ایک مشترکہ نظریاتی جدوجہد کے جھنڈے تلے اکٹھا کریں۔ ایک ایسی تبدیلی جو لوگوں کو ذہنی غلامی، غربت اور ناانصافی کی سیاہ غار سے آزاد کروا سکے۔

    ماخذ:
    http://baseeratafroz.pk/article/364
    Share via Whatsapp