علمی سوالات کی اہمیت اور ہماراموجودہ نظام تعلیم - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • علمی سوالات کی اہمیت اور ہماراموجودہ نظام تعلیم

    دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ سیاست، معیشت، تہذیب اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر دن نئے نئے انکشافات اور تجربات سامنے آرہے ہیں۔

    By افسر خان شہزاد Published on Oct 29, 2025 Views 122
    علمی سوالات کی اہمیت اور ہماراموجودہ نظام تعلیم
    تحریر ؛ ڈاکٹر افسر شہزاد۔بنوں 

    دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ سیاست، معیشت، تہذیب اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر دن نئے نئے انکشافات اور تجربات سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں اگر آج کا طالبِ علم یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے تو وہ نہ صرف اس دور کا طالبِ علم ہی نہیں، بلکہ اس دور کا قابل قدر اجتماعی فہم رکھنے والا انسان بھی نہیں کہلا سکتا۔ علم، محض رَٹے جانے والے مضامین کا نام نہیں، بلکہ شعوری آبیاری کا نام ہے۔
    طالب علم کے اوصاف 
    طالبِ علم میں تین بنیادی اوصاف لازمی ہونے چاہییں :
    1۔ سیاسی شعور
    2۔ معاشی فہم 
    3۔۔ حالاتِ حاضرہ کے درست تجزیہ کی صلاحیت
    چاہے طالبِ علم یونیورسٹی کا ہو یا مدرسے کا، اگر اسے حالاتِ حاضرہ کے تجزیے کا شعور نہیں تو وہ یقیناً نامکمل علم حاصل کررہا ہے۔ 
    اساتذہ کی ذمہ داری 
    اساتذہ کی اہم ذمہ داری یہی ہے کہ ؛
    وہ اپنے شاگردوں کو نہ صرف نصابی علوم سے آراستہ کریں، بلکہ ان کے سامنے دنیا کی اصل حقیقت اور آج کے حالات کے مطابق صورتِ حال سے بھی آگاہ کریں۔ 
    اگر ایک استاد اپنے شاگرد کو یہ نہیں پڑھا رہا کہ دنیا میں کیسی سیاست ہورہی ہے؟  نظام عدل کا ہے یا ظلم کا۔ اور بڑے بڑے ملکوں کے حکمران ظالم  ہیں یا عادل؟ کون سی طاقتیں آپس میں برسرِ پیکار ہیں؟ آج کی جنگ مذہب کی ہے یا معیشت و مارکیٹنگ کی؟تو اس سے استاد صاحب کے  شاگردوں میں شعوری پستی رہے گی جو قومی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔
    دین اسلام کی خصوصیت
    دین اسلام عقل و شعور کو اُبھارتا ہے۔ قرآن مجید میں بار بار غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے :
    "اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْاٰنَ" (النساء: 82) 
    کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے؟
    نبی کریم ﷺ نے  فرمایا ؛ 
    "طلب العلم فريضة على كل مسلم" (سننِ ابن ماجہ)
    علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔
    یہ ”علم“ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ آج کی دنیا کے حالات و واقعات کا شعور بھی ہے۔ 
    سوالات قائم کرنے کی ضرورت 
    یہی وَجہ ہے کہ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کبھی سوال کرنے سے منع نہیں کیا، بلکہ سوالات کو حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ جو شخص حق پر ہوتا ہے وہ سوالات سے نہیں ڈرتا اور جو باطل پر ہوتا ہے وہ سوالات سے گھبراتا ہے۔
    سوالات کا نہ ہونا ذہنی و عقلی جمود کی علامت  
    ہمارے قومی تعلیمی نظام میں نقص کے سبب تعلیمی ماحول کی صورتِ حال یہ ہے کہ آج کی جامعات، اسکول و کالجز اور مدارس میں سوالات کرنے پر حوصلہ افزائی کم ہی کی جاتی ہے۔ حال آں کہ سوال علم کی بنیاد ہے، جس سے جہل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ سوالات ہی ذہن کو روشن کرتے اور حقیقت کو آشکارا کرتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ نے خود بھی سوالات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ جب فرشتوں نے حضرت آدمؑ کی تخلیق کے بارے میں سوال کیا :
    "اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ" (البقرۃ: 30)
    تو اللہ نے انھیں جواب دیا، ان کی بات کا برا نہیں مانا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سوال شعور کی علامت ہے، گستاخی کی نہیں۔
    ایسی ہی سوچ کے ساتھ، ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ وطن عزیز میں ایک صالح سماجی تبدیلی کے لئے اجماعتی سطح پر کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں نہ صرف سوالات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہیں، بلکہ ادارے کے تربیتی نظام سے وابستہ حضرات بہترین انداز میں قرآن و سنت کی روشنی میں، حالاتِ حاضرہ کو سامنے رکھ کر جوابات دیتے ہیں۔ وہ سوال کو بُرا نہیں مانتے، بلکہ اسے شعور کی علامت سمجھتے ہیں۔ 
    یہی وَجہ ہے کہ یہ ادارہ نوجوانوں میں شعور کی بیداری اور صالح فکری وعملی تحریک  پیدا کر رہا ہے۔
    ہماری اجتماعی ضرورت 
    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مدارس اور جامعات بھی اسی راہ پر چلیں۔ طلبا کو صرف نصاب کے دائرے کے قیدی نہ بنایا جائے، بلکہ ان کو سیاسی، معاشی اور سماجی شعور دیا جائے۔ انھیں سکھایا جائے کہ یہ دور صرف  کتابی علوم  کا نہیں، بلکہ عملی میدان میں اُتر کر صالح سماجی تبدیلی لانے کا ہے۔
    دینِ اسلام کی خصوصیت 
    اسلام کبھی جمود کا قائل نہیں رہا۔ اسلام تو حرکت، سوال، شعور اور صالح سماجی تبدیلی کا دین ہے۔ اگر آج کے طلبا سوال نہیں کریں گے تو معاشرہ غلامی و جہالت کے اندھیروں سے کیسے نکلے گا۔ اس لیے اساتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ طلبا کے سوالات کی حوصلہ افزائی کریں اور طلبا کو چاہیے کہ وہ اپنے اساتذہ سے عصرِحاضر کے تقاضوں کے مطابق مناسب درجے کے سوالات قائم کریں۔
    حصول علم کا مقصد 
    علم کا مقصد یہی ہے کہ انسان باخبر ہو، باعمل ہو اور دنیا کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرے۔ جب طالب علم شعور و بصیرت سے لیس ہو گا تو وہ معاشرے میں انقلابی کردار ادا کرے گا۔ 
    یہی وہ شعور ہے جو ہمیں باطل نظام کو پہچاننے اس سے بچنےاور عدل و انصاف کے نظام کے قیام کی طرف لے جاتا ہے۔
    Share via Whatsapp